چین کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز شنگھائی میں اٹھارہ اراکین رکن ممالک کی دو روزہ کانفرنس حال ہی میں اختتام پذیر ہوئی جس میں چین، روس، بھارت، پاکستان، ازبکستان، آذربائیجان، ایران، منگولیا، آرمینیا، کمبوڈیا، ترکی، نیپال اور سری لنکا کے سربراہوں نے شرکت کی۔ ازبکستان اس بارکانفرنس کا میزبان ملک تھا۔ آئندہ سال یہ کانفرنس نئی دہلی میں منعقد ہو گی۔ یہ تنظیم وسط ایشیاء مشرق بعید روس اور چین پر مشتمل ایک لحاظ سے دنیا کی 60 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے۔ کانفرنس میں چین، روس، بھارت اور پاکستان کے رہنما زیادہ نمایاں رہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد خطہ کے ممالک اراکین کے مابین سیاسی معاشی اور سماجی تعاون کو فروغ دینا، خطہ کو تنازعات سے دُور رکھنا ،امن قائم رکھنا اور دفاعی تعاون کو بڑھوا دینا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام جون 2001ء میں آیا اس کی اب تک بائیس کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔
2005ء میں امریکا نے اس تنظیم کی رکنیت کے لئے درخواست کی تھی، جس کو مسترد کردیا گیا۔ بھارت اور پاکستان 2016ء میں رکن بنائے گئے۔ تنظیم کی گرانڈ کونسل تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے، جس کے رکن ممالک کے سربراہ ممبر ہیں۔ منعقدہ کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم میاں شہیاز شریف نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا مؤثرانداز میں ذکر کیا اور عالمی برادری سے اس نازک وقت میں سیلاب زدگان کی مدد کی درخواست کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے زمین کے قدرتی ماحول میں بگاڑ اور آلودگی میں اضافہ کا ذمہ دار سب کو قرار دیتے ہوے کہا کہ، اس موسمی بگاڑ کا سب سے بڑا شکار پاکستان ہو رہا ہے ،ایسے میں سب کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی بھرپور مدد کریں۔
افغانستان تنظیم کا رکن ملک ہے، مگر طالبان کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ دراصل بیشتر اراکین ممالک کا مؤقف تھا کہ ان کے ، فی الفور افغانستان سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں ،اسی لئے انہوں نے طالبان کو دعوت دینے میں اپنے تحفظات کا واضح اظہار کر دیا۔ حالیہ کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم کی چین اور پاکستان کے سربراہوں سے کوئی بات چیت نہیں ہوی ،ان ممالک کے آپس میں کشیدہ تعلقات کا پریس میں بھی چرچا ہوا۔
تاہم پاکستان کے وزیراعظم نے روسی صدر پیوتن، چینی صدر شی جی پنگ اور دیگرممالک کے سربراہوں سے ون ٹو ون مذاکرات کئے اور مشترکہ مفادات کے موضوعات پر بات بھی کی۔ اس کانفرنس کا فائدہ پاکستان کو یہ ہوا ہے کہ گزشتہ تین چار سال میں پاکستان اس خطہ اور عالمی سطح پر جس سیاسی تنہائی کا شکار ہو رہا تھا،کانفرنس کے بعد وہ دور ہوتی نظرآرہی ہے۔ اس طرح پاکستان اور دیگر ممالک کے مابین دوطرفہ تعاون میں اضافہ کا قوی امکان ہے۔
حالیہ کانفرنس میں روسی صدرپیوتن بہت خوشگوار موڈ میں اور پرجوش نظرآئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بہت سی اہم باتوں کا ذکر کیا ۔ مثلاً انہوں نے کہا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب روس نے اپنی مقامی پالیسی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں ،جیسے روسی پائلٹ جو ایک عرصہ گرائونڈ پر ہی رہے اب وہ ریگولر پیٹرولنگ کریں گے اور روس اپنی سرحدوں کی نگرانی کرتا رہے گا۔ اس فیصلے سے روسی پائلٹ خوش ہیں کہ وہ فضائوں میں رہیں گے۔
ولادیمر پیوتن نے کہا درحقیقت دنیا میں عالمی سیاست، معیشت اور سیکورٹی کے اہم مراکز تبدیل ہو رہے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ ہمیں اپنی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے حوالے سے پوری سنجیدگی سے فیصلے کرنے اور ان پر عمل کرنا ہوگا۔ روسی صدر نے چند بڑے ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ، دنیا میں تیل قدرتی گیس کا کاروبار درہم برہم کرکے اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں ،مگر روس نے ہر ملک کو تیل اور گیس فراہم کرنے کا عزم کر رکھا ہے،باوجود پابندیوں کے یورپی ممالک روس سے تیل خریدنے پر مائل ہیں اور ہم نے ان سے بھرپور تعاون کیا۔
روسی صدر کی اس طرح کی بات چیت اور چینی صدر کے ان سے مکمل تعاون کو یورپی میڈیا نے روس اور چین کے ممکنہ نیو ورلڈ آرڈر کا عنوان دیا ہے۔ بیشتر مغربی تجزیہ کاروں اور نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ روس اور چین جلد ہی اپنے نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان کر سکتے ہیں۔ مغربی میڈیا کا یہ انداز بڑی حد تک درست ہے کہ طاقت کا توازن عالمی طور پر تبدیل ہو رہا ہے،پلڑا مشرق کی جانب جھکتا محسوس ہو رہا ہے، کیونکہ اس کانفرنس اور خطے میں روس، چین، بھارت، پاکستان، ایران موجود ہیں اس لئے طاقت کے توازن میں قدرے تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ روس اور یوکرین دونوں ممالک کی حمایت کرکے سب کوحیران کر دیا اور انہوں نے روس کو مشورہ دیا کہ یوکرین میں جنگ بند کردیں۔ اس سے کچھ لوگ فائدہ لے رہے ہیں مگر زیادہ نقصان ایک تہائی دنیا کو ہو رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ روس نے اپنے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ روس کسی صورت یوکرین پرحملہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر یوکرین کی حکومت نے ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ روس کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ یورپی میڈیا میں یہ بات بھی چل رہی ہے کہ شنگھائی تعاون کی تنظیم نے اپنے پسماندہ ملکوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا محض کانفرنسس سے کچھ نہیں ہوتا تنظیم مدد بھی فراہم کرے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر جس کسی بڑی عالمی یا علاقائی تنظیم کی طرف اشارہ کریں ان کا کوئی ’’آئوٹ پٹ‘‘ دکھائی نہیں دیتے، سارک کا قیام بھی عمل میں آیا تھا مگر کچھ عرصہ بعد ان چراغوں میں بھی روشنی نہ رہی، البتہ یورپی یونین جو یورپ کے ستائیس ممالک کی تنظیم ہے، اس نے اپنے طور سے پسماندہ اراکین ممالک کی مدد کی، جیسے مشرقی یورپ کے بعض ممالک جو سابق سوویت یونین سے الگ ہو کر یونین سے آملے ان میں قدرے تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔
تجارتی تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بیشتر افراد کو ویزافری ہونے کی سہولت کی وجہ سے روزگار میسرآیا۔ طلباء کو تعلیم کے مواقع میسر آئے۔ ٹیکنالوجی کا تبادلہ عمل میں آیا ۔ پورے براعظم یورپ میں ایک کرنسی یورو رائج ہوئی وغیرہ وغیرہ، اس لبرل پالیسی سے بیشتر یورپی ملکوں کو فائدہ ہوا۔ اس طرح دیگر تنظیموں میں نظر نہیں آتا۔ کانفرنیس ہوتی ہیں، فوٹو سیشن ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے میل جول ہوتا ہے اور بس،وہ اِدھر یا اُدھر والا معاملہ ہوتا ہے۔ شنگھائی کانفرنس میں بھی بعض حلقوں کی جانب سے ون چائنا پالیسی کی آوازیں اُٹھتی رہی ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ دنیا میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ہمیں غیر ملکی طاقتوں کی سازشوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ انہوں نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ امریکی فوری طور پر افغانستان کے اثاثے بحال کرے۔ امریکا نے ساڑھے تین ارب ڈالر سوئزر لینڈ کے بینک میں منتقل کئے ہیں،یہ رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ انہوں نے تمام اراکین ممالک کے سربراہوں کا شکریہ ادا کیا۔ چینی صدر نے زور دے کرکہاکہ ،دنیا کو امن وسلامتی کی ضرورت ہے۔ اراکین ممالک ایک دوسرے سے ہرطرح کا تعاون کریں۔ بعدازاں پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہاکہ ،پاکستان ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہے۔
ساڑھے تین کروڑ سے زائد عوام کھلے آسمان تلے بھوک و پیاس اور بیماریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ان کو مدد کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے وسائل کے مطابق انہیں مدد پہنچا رہا ہے، مگر یہ قطعی ناکافی ہے ایسے موقع پر عالمی برادری کو اپنا انسانی فلاحی کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان نے مزید کہاکہ، امن کانفرنس میں افغانستان کو دعوت نہ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔ میں دنیا سے اپیل کرتا ہوں کہ افغان عوام کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ پاکستان ایک طویل مدت تک دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں امن ہوگا۔ اگر وہاں بے چینی بدامنی ہوگی تو پھر پاکستان کو بھی ان مسائل کا کر نا پڑے گا۔
اس لئے افغانستان کو استحکام کی ضرورت ہے۔ تمام انفرااسٹرکچر تباہ حال ہے۔ افغانستان معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ تعلیم صحت روزگار اور انفرااسٹرکچر بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کانفرنس سے درخواست کی کہ وہ فوری عرب، ترکی، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین اورکویت کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت دے کر اس تنظیم کا حصہ بنائیں۔ روسی صدر ولادیمر پیوتن نے چینی صدر سے ملاقات کے موقع پر کہاکہ روس اور چین کے مابین گہری دوستی ہے مگر اس میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس پر مغربی میڈیا نے ایک بار روس، چین نیو ورلڈ آرڈر کا ذکر کیا ہے۔
اس کانفرنس کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن کا ایک طویل انٹرویو امریکی اخبار میں شائع بھی ہوا اور ٹی وی پر نشر بھی ہوا ،جس میں امریکی صدر نے روس اور روسی صدر پیوتن پر شدید نکتہ چینی کی اور روس کو خبردار کیاکہ یوکرین میں روس کی تین ماہ کی خونریز جنگ میں روس کو جس حزیمت کا سامنا ہے اس کا بدلہ لینے کیلئے روس یوکرین میں غیر روایتی ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے سی آئی اے ڈائریکٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں وائٹ ہائوس کو بتایا ہے کہ یوکرین کے مشرقی شہر ارم میں ایک بہت بڑی اجتماعی قبر پائی گئی جس میں تین سو سے زائد شہریوں کو ہلاک کرکے دفنایا گیا تھا۔
امریکی صدر نے خبردار کیا ہے کہ یہ گھنائونا اور بھیانک جرم ہے جو نازیوں کا وتیرہ تھا مگر امریکا اسے قطعی برداشت نہیں کر سکتا۔ روس اپنی حزیمت کا بدلہ نہتے یوکرینی شہریوں سے لے رہا ہے اورغیر روایتی استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے روس کو بڑی دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو کوئی سوچ نہیں سکتا کہ روس کے خلاف امریکا کیا اقدام کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ اس خوفناک صورتحال کا میں خود بھی اندازہ نہیں کرسکتا کہ روس کو کیا کیا بھگتنا پڑے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ یوکرین کی جنگ کی طوالت اور روس کے اقدام سے روسی عوام میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا ہے اور عوام صدر سے پوچھ رہے ہیں کہ تین دن کی جنگ کا دعویٰ تین ماہ گزرنے کے بعد بھی وہیں ہے جہاں سے معاملہ شروع ہوا تھا۔
شنگھائی تعاون کانفرنس میں بھی یہ آوازیں اٹھیں تھیں کہ یوکرین میں روس مزید انتہائی اقدام پر غور کر رہا ہے۔ ایسے میں چین کے حامی حلقوں نے بھی ون چائنا پالیسی کی حمایت میں آوازیں اٹھائیں۔ میڈیا میں یہ بھی خیال پایا جاتا رہا کہ روس نے یوکرین میں یہ اقدام اٹھا کر اپنے اور خطے کے لئے گھمبیر مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ یوکرین کے عوام بڑی طاقتوں کی کشمکش کا شکار بن رہے ہیں۔ خاص طور پر یورپی ممالک بھی یوکرین جنگ کے بدلتے رُخ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہیں کہ معاملہ اگر نیا رُخ اختیار کرگیا تو کیا ہوگا۔ روسی صدر نے یورپی ممالک کو یقین دلایا ہے کہ روس یورپ تیل اور گیس کی فراہمی جاری رکھے گا۔
یورپ میں موسم سرما شروع ہو چکا ہے،ایک ماہ بعد برفباری اوربارشوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے ایسے میں تیل اور قدرتی گیس کی فراہمی کو یقینی بنانا بڑا مسئلہ ہے ہر چند کہ امریکا نے بھی یورپ کو تیل کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔ دنیا کے بدلتے حالات میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے موقع پر بھارتی وزیراعظم نے روسی صدر پیوتن سے اپیل کی کہ یوکرین میں جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ، اب روس بھی تھرڈ پارٹی کے ذریعہ مذاکرات کے حوالے سے غورکر رہا ہے۔
تاہم تاریخ گواہ ہے کہ میدان جنگ کے زیادہ تر فیصلے مذاکرات کی میز پر طے ہوئے اور قوموں کے مابین بڑے بڑے معاہدے طے پائے۔ شنگھائی تعاون کی تنظیم کے منشور میں خطے کے ممالک کے مابین امن قائم رکھنا، تجارت اور سماجی معاملات کو فروغ دینا ہے، ایسے میں ایک حد تک امکان ہے کہ یوکرین کے مسئلے کو پر امن طور پر حل کرنے پر بیک ڈور ڈپلومیسی کو آزمایا جائے،اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت مناسب قدم ہوگا۔ شنگھائی تعاون کی تنظیم کا ایک اچھا شگون ہوگا۔
حال ہی میں عالمی میڈیا میں ازبوم شہر جویوکرین کا دوسرا بڑا شہر ہے اور یوکرین کی مشرقی سرحد کے قریب واقع ہے، وہاں سے 450سے زائد اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ،اس افسوسناک خبر کے عام ہونے کے بعد مغربی ایوانوں میں روسی صدر ولادیمر پیوتن کے خلاف ایک لہر چل پڑ ی ہے۔
یورپی یونین کی صدر نے فوری طور پر عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ روسی صدر پیوتن کے خلاف جنگی جرائم کے حوالے سے فوری مقدمہ چلایا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلی خبر جب دریافت ہوئی تھی اس میں تین سو سے زائد نہتے شہریوں کو ہلاک کرکے اس قبرمیں دفنا دیا گیا تھا،کچھ مبصرین کہتے ہیں اتنی بڑی خبر محض شنگھائی کانفرنس کی وجہ سے روک دی گئی تھی جو حال ہی میں اختتام پذیر ہوئی، اسی کے ساتھ امریکی صدر نے روسی صدر کو وارننگ بھی دی کہ یوکرین کے خلاف غیرروایتی ہتھیاروں کا استعمال انتہائی بھیانک قدم ہوگا،روس اس سے باز رہے۔ بعدازاں اجتماعی قبروں کی خبر نے تہلکہ مچا دیا ہے اگر واقعی انٹرنیشنل کورٹ میں مقدمہ چلتا ہے تو نورمبرگ کے بعد یہ بہت بڑا مقدمہ ہوگا جس کے اثرات دور تک جا سکتے ہیں۔
پاک روس باہمی مفادات ایک دوسرے کو مزید قریب لارہے ہیں
شنگھائی تعاون تنظیم کے سر براہان مملکت کی کونسل کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی ملاقات دونوں ملکوں میں توانائی ، تجارت، تحفظ خوراک اور سیکورٹی امور کے حوالے سے اہم اگرچہ دو طرفہ تجارت اور معاشی نوعیت کا تعاون ابھی اس سطح کو نہیں پہنچ سکا جسے تسلی بخش قرار دیا جاسکے بہرحال بہت سے منصوبے زیر غور ہیں اور پچھلے کچھ عر صے کے دوران سبھی حکومتوں نے اس جانب پیش رفت کی ہے۔ روس بلاشبہ توانائی کے ذخائر سے مالامال ہے جب کہ صنعتی اعتبار سے بھی اس کی ساکھ مضبوط ہے۔
دونوں ملکوں میں بھاری صنعتوں میں تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اسٹیل ملز پاک روس صنعتی تعاون اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی ایک ایسی مثال ہے جسے ضرور یاد کیا جا تا ہے۔ اس ناکام منصوبے کو چالو کرنے اور مستحکم بنانے میں بھی پاکستان اور روس میں تعاون کار گر ثابت ہوسکتا ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے اعلٰی سطحی رابطوں میں اسٹیل ملز کا معاملہ زیر ِبحث بھی رہا ہے، مگر ابھی تک اس ضمن میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات میں روسی صدر نے کہا پاکستان کو گیس کی سپلائی ممکن ہے۔
صدر پوتن کا یہ بیان دونوں ممالک میں توانائی کے شعبے میں شراکت داری کا نیا عندیہ ہے۔ ماضی میں یورپ روس کی گیس کا تھوک کا گاہک تھا اور قدرتی طورپر وہی مارکیٹ روسی دل چسپی کا مرکز تھی، تاہم نئے حالات میں روس کواپنے توانائی کے وسائل کے لیے نئے گاہک تلاش کرنا ہیں۔ جب کہ پاکستان توانائی کے پروڈیوسرز کی تلاش میں ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہیں کہ بدلے ہوئے عالمی حالات میں پاک روس باہمی مفادات ایک دوسرے کو مزید قریب لارہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیاں خوفناک صورتوں میں اثر انداز ہورہی ہیں، وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے اجلاس سے وزیر اعظم شہباز شریف کا خطاب دہشت گردی کے خاتمے، ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور افغانستان میں استحکام میں علاقائی کردار کا احاطہ کرتا ہے، تاہم سیلاب کی صورت میں ملک کو جس تباہ کن ماحولیاتی آفت کاسامنا ہے۔ اس صورت ِحال میں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عالمی حدت اور اس کے منفی اثرات کے حوالے سے علاقائی فورم کو بروئے کار لانے کا مقصد صرف یہیں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔
تنظیم کے ہر اجلاس میں ماحولیاتی صورت ِحال کو ایجنڈے کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے علاقائی تنظیموں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، خاص طور پر دنیا کے اس حصے میں جہاں پہ تبدیلیاں شدید صورت میں اثر انداز ہورہی ہیں اور ان کے نتائج صرف جانی اور مالی نقصان کا سبب نہیں بن رہے بلکہ خوراک کی پیداوار اور انسانی ترقی کی کوششوں کو بھی ان سے شدید دھچکالگ رہا ہے۔ ان حالات میں علاقائی ممالک کے مابین تعاون سے جڑا ہوا ہے۔
علاقائی تعاون کے فورم کو معاشی سر گرمیوں اور خوراک کی پیدا وار میں تعاون کے لیے بھی بروئے کار آنا چاہیے۔ علاقائی سلامتی کا تصور اپنی جگہ اہم ہے، مگر غذائی تحفظ اور شہریوں کا معیارِ زندگی کسی ملک میں پائیدار استحکام اور وہاں کی افرادی قوت کو کار آمد بنانے کے لیے اہم ہے۔ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف اور چین کے صدر شی جن پنگ کی ملاقات میں دونوں ممالک میں صنعت زراعت، سائنس ،ٹیکنالوجی اور سماجی بہبود کے شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر بھی بات ہوئی۔