بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی
راتیں کبھی ان کے ساتھ خوش گپیوں میں بیت جاتی ہیں ،
تو کبھی آدھی رات کو ، پانی کی بوتلیں گرم کرتے،
کبھی دار چینی اور سونف کے قہوے بناتے ، کبھی سر میں تیل ڈالتے تو
کبھی پڑھتی بیٹی کے لیے دودھ گرم کرتے
بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی ………
آنگن میں ٹہلیاں کرتے ، کبھی سہیلیوں سے لڑتے ،
ماؤں کی نیندیں لوٹ لیتی ہیں ،
رنگ برنگے فراکوں میں لپٹی گڑیا ماں کے برابر آ جاتی ہے
اور ماں ہر بار درزی سے قمیض کی لمبائی کم ہے کا شکوہ کرتی ہے
پرانی ساڑھیاں لمبے فراک بن جاتے ہیں
گوٹے کنارے والے بیس سال پرانے دوپٹّے پھر سے اوڑھے جاتے ہیں
بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی… ……
کونوں کھدروں میں سرگوشیاں بڑھ جاتی ہیں
ماں کی لال لپ اسٹک اور کاجل دنوں میں ختم ہو جاتا ہے
اب ماں کو ہر بار دوکاندار سے کچھ خریدتے پسینہ آنے لگتا ہے
درزی کو ناپ سمجھاتے آنکھیں چرانی پڑتی ہیں
شوہر کو اضافی خرچے پر راضی کرنا پڑتا ہے
تنکا تنکا جسے کوئی چڑیا آشیانہ بناتی ہے ،بیٹیوں کی مائیں جہیز بناتی ہیں
بیٹیاں ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی ………
اپنی دوائی پھر لے لوں گی کہہ کر کمیٹیاں ڈالتی ہیں
شوہر کے طعنوں کو کوئی بات نہیں کہہ کر ٹالتی ہیں
دیوار سے اونچی ہوتی بیلوں جیسی بیٹیوں کو
کوئی سایہ دار شجر مل جائے، بس راتیں وظیفوں میں کاٹتی ہیں
اپنی جوانی کے سارے پھول نچوڑ کر
اپنی بیٹی کو عطر بناتی ہیں ، پر یہ بیٹیاں بڑی ظالم ہوتی ہیں
جب پیدا ہوں تو ماؤں کو نیند نہیں آتی
جب رخصت ہوں تو ماؤں کو سانس نہیں آتی............. (منقول)