اسرارالحق قاسمی
انسان کی شخصیت میں سائنٹفک طرزفکر کا ارتقاء انسانی شخصیت کے مجموعی ارتقاء ہی کاایک حصہ ہے، جہاں ایک طرف اس کا گہراتعلق تعلیم و تربیت سے ہے، وہیں دوسری طرف بہتر سماجی ماحول،گھر اور پڑوس، گھریلو اور خاندانی روایات، حلقۂ احباب وغیرہ سے بھی ہے، جن سے اس کا رات دن سابقہ پڑتا ہے۔ یہی چیزیں انسان کی سوچ میں مثبت اور غیر جانبدارانہ انداز پیدا کرتی ہیں۔
اعتدال پسندی، افہام و تفہیم کا جذبہ، افراد اور واقعات میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت، صحت مند تنقید کا مزاج، اختلافی مسائل میں دوسروں کی بات سننے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی عادت، احساس ذمہ داری، مؤثر اور باوقار انداز گفتگو، اپنی بات کو دلیل کے ساتھ ثابت کرنے کی عادتیں پیدا ہوتی ہیں۔
یہی تعلیم کا اعلیٰ ترین مقصد ہے اور اسی میں قوموں کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے، جس معاشرے میں ایسے افرادبہ کثرت ہوں گے، وہ معاشرہ زیادہ پرسکون، امن پسند، کم سے کم اختلاف کے ساتھ جیو اور جینے دو کے اصولوں پر عمل کرنے والا ہوگا، اس طرح کے طرز فکر کو پیدا کرنے میں اہم ترین کردار سمجھدار ماں باپ، پھر اساتذہ کا ہوتا ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر کس قدر توجہ دے رہے ہیں اوران کے سوچنے سمجھنے کی کس قسم کی صلاحیت کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ جو موجودہ صورت حال ہے اس کا اگر انصاف پسندی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے کہ اگرچہ نئی نسل بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے آرہی ہے اور نوجوانوں میں تعلیم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے، مگر اس تعلیم کا جو نتیجہ خود اس نسل پر، معاشرے اور ملک پرمرتب ہونا چاہئے تھا وہ سامنے نہیں آرہا۔
ہمارے نوجوانوں میں عام طور پر سوچنے اور سمجھنے کا وہ ا نداز نہیں پایاجاتا جسے معقولیت پر مبنی ، مثبت یا سائنٹفک کہا جاسکتا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بعض ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جن کی ان سے توقع نہیں کی جاتی۔ جب ان کی طرف سے ایسے اعمال کاصدور ہوتا ہے تو لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ ایسا تعلیم یافتہ اور قابل فاضل شخص ایسی حرکت کیسے کرسکتا ہے۔
وہ اس لئے کہ عموماً لوگوں کا ذہن یہ بنایا ہوا ہے کہ جو شخص تعلیم یافتہ ہوگا اس کی سوچ بہت بلند ہوگی اور وہ کسی بھی عمل کے انجام پر بھر پور نظر رکھتے ہوئے اسے انجام دے گا، لیکن چوں کہ آج کے تعلیمی مراکز، اسی طرح خود والدین اور خاندان کے ذمے داران و سرپرستان اپنے بچوں کی تربیت پر ویسی توجہ نہیں دیتے جیسی دینی چاہئے، اس لئے بعض نوجوان بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کرلینے اور اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری یا غیر سرکاری منصب پر پہنچ جانے کے باوجود ذہنی اور فکری اعتبار سے نہایت کورے اور نابالغ ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنے نوجوانوں اور ملک و قوم کی تقدیر کو سنبھالنے والی نئی پیڑھی کی درست ذہنی و فکری تربیت پر دھیان نہیں دیتے تو پھر ہمیں آنے والے دنوں میں موجودہ حالات سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نوجوانوں کی کل آبادی غیر منطقی اور غیر سائنٹفک طرزِ فکر کی شکار ہے، بہت سے ایسے نوجوان بھی ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ نہایت بہتر دماغی و ذہنی صلاحیتوں سے بھی لیس ہیں، ان کی سوچ میں بے شمار خوبیاں پائی جاتی ہیں اور وہ ہر وقت اپنے اور اپنے ملک و قوم کی بہتری و ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں، مگر عام طور پر ایسا نہیں ہے۔عام طور پر جو کیفیت ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان اپنے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے ہونے کے باوجود بعض نہایت بودے اور بیہودہ خارجی اثرات کو قبول کررہے ہیں اوراس کے نتیجے میں سماج اور معاشرے کو ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
سوچ میں معقولیت اور منطقی طرز فکرکی ضرورت زندگی اور عمل کے ہر شعبے میں ہے اور اس ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا۔ چاہے ہمارے دنیوی معاملات ہوں یا مذہبی اعمال و معاملات ہر شعبے میں سوچنے اور سمجھنے کا وہی انداز اختیار کرنا چاہئے جو ہمارے لئے اور ہمارے گرد و پیش کے لئے خیر اور بھلائی کا باعث ہو۔ نرے جذبات سے عموماً حالات خراب ہوتے ہیں اور پھر اس کا نقصان کبھی شدید اور کبھی شدید ترین بھی ہوتا ہے۔
سوشل میڈیااور انٹرنیٹ پر موجود سماجی رابطہ کی دیگر سائٹس پر جاکر دیکھئے تواندازہ ہوگا کہ کیسے کیسے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی سیاسی بھیڑچال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نتیجے میں عام طور پر انھیں کوئی فائدہ بھی نہیں حاصل ہورہا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بے چارے پڑھے لکھے تو ہیں مگر ان کے طرزفکر میں کسی قسم کی پختگی اور حالات کو صحیح رخ پر سمجھنے کی قوت و صلاحیت نہیں ہے اور اس کے مجرم یہ نوجوان نہیں، بلکہ وہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے اور وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی تربیت اور نشوونما میں حصہ لیا ہے۔