ظفر کمالی
کسی کوے نے اک کوئل سے پوچھا
بتا بہنا کہ ہے یہ ماجرا کیا
غضب ہے یہ کہ ہم دونوں ہیں کالے
خدا کے فضل سے ہیں عقل والے
مگر دنیا کرے کیوں پیار تجھ سے
رہیں چھوٹے بڑے بیزار مجھ سے
ترا ہی نام ہے سب کی زباں پر
ترا جادو تو ہے سارے جہاں پر
جو شاعر ہیں لکھیں تیرا ترانہ
بتا تیرا ہے کیوں عاشق زمانہ
رہا کرتی ہے تو بچوں کے دل میں
مگر اک میں کہ چوہا جیسے بل میں
جہاں جا کر کروں میں کائیں کائیں
وہاں سے مار کر مجھ کو بھگائیں
نظر میں تیر اور تلوار بن کر
کھٹکتا ہوں دلوں میں خار بن کر
جسے دیکھو اسے مجھ سے ہے وحشت
سبھی کو نام سے میرے ہے نفرت
کہا کوئل نے کوے سے کہ بھائی
نہ کیوں تیری سمجھ میں بات آئی
جسے آتی نہ ہو شیریں بیانی
کرے کیا وہ دلوں پر حکمرانی
ہیں سب اس کے جو میٹھے بول بولے
جو لب کھول تو رس کانوں میں گھولے
کہاں میں بولنے میں چوکتی ہوں
مگر جب بولتی ہوں کوکتی ہوں
مری آواز میں پھولوں کی نرمی
تری آواز میں شعلوں کی گرمی
زباں سے میں بنی آنکھوں کا تارا
مگر تیری زباں نے تجھ کو مارا
تو جس دن سیکھ لے گا خوش کلامی
ملے گی ہر جگہ تجھ کو سلامی