شیخ چلی نے اپنے دوست کو کھانے کی دعوت دی۔ دستر خوان پر صرف اُبلے ہوئے سفید چاولوں کی ایک پلیٹ رکھی تھی۔ مہمان بہت حیران تھا کہ یہ کیسی دعوت ہے جس میں صرف سادے چاول خیرصبر کرکے وہ کھانے لگے ہی تھے کہ اندر سے شیخ چلی کی بیوی نے آواز دی ، ’’کیا مرغی لے آؤں؟‘‘
شیخ چلی نے جواب دیا، ’’نہیں تھوڑا صبر کرو۔‘‘
مہمان نے کہا،’’جب وہ مرغی لا رہی ہیں تولانے دو۔‘‘
شیخ چلی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دس منٹ کے بعد بیوی نے پھر پو چھا ، ’’مرغی لے آؤں‘‘۔
شیخ چلی نے ایک بار پھر وہی جواب دیا۔
جب چاول کھا چکے تو بیوی کو آواز دی، بیگم! اب مرغی لے آؤ۔‘‘
مہمان دل میں خوش ہو گیا کہ چلو بے مزا چاول کھانے کے بعد اب مزے کی مرغی کھانے کو ملے گی۔ جونہی شیخ چلی کی بیوی مرغی لے کر آئی تو مہمان یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ زندہ مرغی تھی، جسے دستر خوان پر گرے ہوئے چاول کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔