• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاتعصب قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا، عدلیہ تمام مسائل حل نہیں کرسکتی، سیاسی لیڈر شپ کو بات چیت کرنی چاہئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد (اے پی پی):چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدلیہ نے بلاتعصب قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا ہے، عدلیہ تمام مسائل حل نہیں کر سکتی، سیاسی لیڈر شپ کو بات چیت کرنی چاہیے.

 ایگزیکٹو کو فیصلوں پر بلاتاخیر عمل کرنا چاہیے، سیاسی لیڈر شپ کو بات چیت کرنی چاہیے، سستا اور فوری انصاف ہماری ترجیح ہے، عدلیہ آئین اور قانون کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے.

آرٹیکل 9کے تحت شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں، قانون کی حکمرانی عدلیہ کا فوکس ہے، کمزور اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کو عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے محفوظ کیا، مذہبی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے عدلیہ نے وفاقی حکومت کو احکامات جاری کئے، نظام انصاف میں بہتری لانے کیلئے ایگزیکٹو سمیت تمام شراکت داروں کے ساتھ ملکر کام کرنے کیلئے تیار ہیں.

 سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ بار کے فیصلہ سے نظریہ ضرورت کا راستہ بند کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے آئین سے متصادم رولنگ دی، عدالت نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر آئین کا نفاذ کیا، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے.

 حالیہ سیلاب سے پاکستان میں شدید تباہی آئی ،سیلاب متاثرین کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے عدلیہ بھی کردار ادا کر رہی ہے،سپریم کورٹ نے ٹرانسجینڈرز کو شناختی کارڈز جاری کرنے کا فیصلہ دیا، عدلیہ نے اقلیتوں کے حقوق سمیت اسکولوں سے متعلق اہم فیصلے دیئے، عدلیہ نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، عدلیہ نے جمہوری بالادستی کے لئے اہم فیصلے دیئے۔

 ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعہ کو یہاں لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ 9 ویں انٹر نیشل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اچھے اور برے تمام فیصلوں کو یاد رکھے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری عدلیہ اپنی غلطیوں کو نہ دہرائے۔

 کانفرنس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کے علاوہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز، چیف جج گلگت بلتستان، چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر، غیر ملکی سفارتکاروں، وفاقی وزیر قانون، ڈسٹرکٹ جوڈیشری سمیت وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے آغاز میں سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی جسٹس امین الدین خان نے خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے بتایا کہ کانفرنس کا مقصد دنیا کے عدالتی آئیڈیاز کو شئیر کر کے عدلیہ اور سائلین کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو کمرہ عدالت سے باہر نظر آئے۔

عدالت کے اندر ہونے والی کارروائی کا باہر ہونے والی تشریح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ عدلیہ کو یقینی بنانا ہے کہ قانون کی نظر میں کسی شخص کے ساتھ امتیازی سلوک نا ہو۔ ججز کی تعیناتی عدلیہ کی جانب سے آزادانہ طور پر ہونی چاہئے۔ ججز کو سیاسی معاملات پر پبلک میں گفتگو کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

چیف جج گلگت بلتستان وزیر شکیل احمد نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ گلگت بلتستان کی اپیلیٹ کورٹ میں خالی آسامیوں پر ججز تعینات کیے جائیں۔ گلت بلتستان کے ججز کی تعیناتی مراعات اور پنشن کو ریگولرائز کیا جائے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ امن و امان کے قیام میں عدلیہ کا کردار بہتر کرنے کیلئے ہائیکورٹ کے ججز سے مشاورت کی۔

بطور ادارہ ہائیکورٹ میں بھی کمی و کوتاہی ہو گی۔ عدلیہ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت منتخب سیاسی نمائندگان کو نااہل بھی کیا۔ تاریخ اچھے اور برے تمام فیصلوں کو یاد رکھے گی۔

 انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عدلیہ اپنی غلطیوں کو نہ دہرائے۔ بہت سے لوگ عدلیہ کو طاقت ور حلقوں میں شمار کرتے ہیں۔ طاقت ذاتی مقاصد کیلئے نہیں بلکہ عوامی مفاد کیلئے ہوتی ہے۔

 تمام ججز آئین اور اپنے حلف کی پاسداری کریں تو مسائل ختم ہو جائینگے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے عدلیہ ہمیشہ پارلیمان کا احترام کرتی ہے۔ عدلیہ میں زیر التوا مقدمات کا بوجھ ہے۔ عدلیہ کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کیخلاف کاروائی نہیں کرتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بہتری لانے کیلئے عوامی رائے لینے کا آغاز کیا ہے۔ ایک سول جج صبح آٹھ بجے سے لیکر شام تک کام کرتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید