• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیو لیک، تحقیقات شروع، وزیراعظم نے نوٹس لے لیا، انکوائری میں تمام ایجنسیاں شامل ہوں گی، معاملہ مشکوک ہے، وزیر داخلہ

اسلام آباد، لاہور،کراچی(خبرایجنسیاں، مانیٹرنگ نیوز، ٹی وی رپورٹ) 12گھنٹوں میں وزیراعظم ہائوس کی 2آڈیو منظرعام پر آ گئیں، سلامتی معاملات پر سنگین سوالات، دوسری آڈیو میں PTIاستعفوں کی منظوری پر مشاورت، لندن سے اجازت کا بھی ذکر،ادھر آڈیو لیک پر تحقیقات شروع۔

 وزیر داخلہ کاکہناہےکہ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا، انکوائری میں تمام ایجنسیاں شامل ہوں گی، معاملہ مشکوک ہے، PMہائوس میں کوئی آلہ فٹ ہوا ہے تو یہ سنجیدہ معاملہ ہوگاتاہم آڈیو ز سے فری اینڈفیئر کام کا تاثر سامنے آیا،وزیراعظم نے اپنےخونی رشتےدارتک کو سمجھانے کی بات کہی،ہماری سیکڑوں آڈیوز بھی ہوں تب بھی کوئی لفظ ایسا نہیں ملےگا جس پرہمیں شرمندگی ہو مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر حکومت سختی سے نپٹے۔

پی ٹی آئی رہنما فوادچوہدری کاکہناہےکہ 100گھنٹے سے زائد کی گفتگو ویب سائٹ پر برائے فروخت ہے۔تفصیلات کےمطابق مسلم لیگ( ن) کے رہنمائوں اور وفاقی وزرا ء کے اجلاس کی آڈیو لیک ہو نے سے وزیرِ اعظم ہائوس کی سیکورٹی پر سوالات اٹھ گئے،وزیرِ اعظم ہائوس میں اجلاس کے دوران آڈیو میں مبینہ طور پر ن لیگی رہنما اور وفاقی وزراء پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی کے استعفوں پر بات کر رہے ہیں، لیک آڈیو میں استعفوں کی منظوری کے لیے لندن سے اجازت لینے کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔

لیک ہونے والی آڈیو میں وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، ایاز صادق سمیت دیگر رہنمائوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں،12گھنٹوں میں وزیراعظم ہائوس کی 2آڈیو منظرعام پر آ ئیں، ایک میں بھارت سے مریم نواز کے دماد کے لیے امپورٹ پر گفتگو سنائی دی گئی۔اب سوالات اٹھ رہے ہیںکہ کیا وزیرِ اعظم ہائوس اتنا غیرمحفوظ ہے کہ وہاں ہونے والی گفتگو کہیں اور سنی جاسکتی ہے؟

آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد کیا وزیرِ اعظم ہائوس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہوسکتا ہے؟کیا حکومت اور وزیرِ اعظم پالیسی سازی کے لیے ان کیمرا اجلاس کر کے مطمئن ہو سکتے ہیں؟کیا وزیرِ اعظم ہائوس میں ایسے خفیہ ریکارڈنگ سسٹم ہیں جنہیں حکومتی ارکان بھی نہیں جانتے؟حکومت اس بارے میں کیا کرنے جا رہی ہے، ابھی تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔

ادھر جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال کیساتھ گفتگو کرتے ہوئےوفاقی وزیرداخلہ راناثناء اللہ نے کہاکہ الحمداللہ یہ جتنی بھی ویڈیوز لیک ہوئی ہیں یا جس نے بھی انہیں ریکارڈ کیا ہے تو ان سے ہماری بہتر گورننس کا اور فری اور فیئر کام کرنے کا تاثر سامنے آرہا ہے، جو پرائم منسٹر کے الفاظ اس ویڈیو میں ریکارڈ ہو کر ادا ہوئے ہیں ان سے بھی ساری بات واضح ہے اور جو ہماری گفتگو ہورہی ہے ہم جو تین چار لوگ منسٹرز بیٹھے ہیں وہاں پر وہ بھی ایک روٹین کی ڈسکشن ہے، میرا خیال ہے یہ ڈسکشن ہم نے وزیراعظم ہائوس کے علاوہ میرے آفس میں دو مرتبہ ہوئی ہے، پارلیمنٹ لاجز میں یہ گفتگو ہوتی رہی ہے۔

 اسپیکر چیمبرز میں بھی اسی طرح گفتگو ہوئی ہے، اب یہ کہاں پر ریکارڈ ہوئی ہے اس کا تو پتا چلے گا لیکن معاملہ یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ پرائم منسٹر ہائوس کی سیکورٹی بریک ہوئی ہے یا بریچ ہوئی ہے، آج کل پرائیویٹ فونز بھی اورلوگ بھی یہ فون جو ہیں ہیک کرلیتے ہیں، اگر وہاں پانچ لوگ بیٹھے بات کررہے ہیں اور ہم میں سے کسی ایک کا فون ہیک ہے اور وہ وہاں پر موجود ہے تو وہ ساری گفتگو سنی جاسکتی ہے، یہ انکوائری میں پتا چلے گا کہ آیا یہ پرائم منسٹر ہائوس کی سیکورٹی بریچ ہوئی یا نہیں ہوئی، یہ بات تو آپ کے علم میں ہے کہ یہ چیزیں عام ہیں، اس لیے ان کے اوپر میرا نہیں خیال کوئی سیریس نوٹس ہونا یا لینا چاہئے۔ دوسری بات جو سیکرٹری اور وزیراعظم کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو ہےتوہوسکتا ہے کہ انہوں نے عام سے فون پر بات کی ہو اور وہ فون ٹیپ ہوا ہو۔اس وقت آپ کا میرا فون ہیک کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ، اگر فون ہیک ہوجائے تو جس طرح کہا جاتا ہے کہ وہ فون کہیں بھی پڑا ہو تو وہاں جو گفتگو ہو وہ ریکارڈ ہوسکتی ہے، ہوسکتا ہے میں نے تو یہ بات کہی ہے کہ ہم میں سے جو لوگ وہاں موجود تھےہوسکتا ہے کہ کسی کا فون ہیک ہوا ہو، اور اس کی موجودگی میں جب بات ہوئی تووہ بات ریکارڈ ہوگئی۔

 اگر کسی انکوائری کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہوئی ہو کہ پرائم منسٹر ہائوس میں بات کرنا محفوظ نہیں ہے اور وہاں پر اس طرح کا انتظام کسی نے بھی کیا ہے، میں کسی کو نامزد نہیں کرتا، کسی نے بھی کیا ہے تو وہ واقعی سنجیدہ معاملہ ہےلیکن اس بات کو بغیر انکوائری مان لینا مناسب نہیں۔

انہو ں نے کہا کہ اس بات کو میںتسلیم کروں گا کہ بعض اجلاس میں جب ہم نے واقعی کوئی ایسی گفتگو کرنی ہو جس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہو کہ اس کو کسی طرح سے یہ ٹیپ نہ ہوجائے تو اس میں اس بات کی پابندی کروائی جاتی ہے کہ فون باہر رکھیں یا فون اگر کسی کے پاس ہے تو آپ اس کو پکڑادیں لیکن اکثر چونکہ فارمل بات ہورہی ہوتی ہے اور ایسی کوئی سیریس بات جس طرح سے ابھی جو یہ بات آڈیو لیک ہوئی ہے، بعض اوقات یا اکثر اوقات اس کو اتنی احتیاط روا نہیں رکھی جاتی، یہ دونوں طرح کی چیزیں ہوسکتی ہے، انکوائری شروع ہوچکی ہے اس معاملہ کو بڑی باریکی دیکھا جائیگا لیکن جب تک نتیجہ نہیں آتا اس وقت تک میرانہیں خیال کہ ہمیں اتنا سنجیدہ ہوجانا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ میری اطلاع کے مطابق وزیراعظم اس معاملے کا نوٹس لیا ہے لیکن چونکہ وہ آج واپس تشریف رہے ہیں، میرا خیال ہے وہ آج مشاورت کریں گے اپنی کابینہ کے ساتھ ہمارے ساتھ بھی، اس کے بعد میرا خیال ہے اس کی انکوائری ایسی ٹیم سے ہونی چاہئے جس میں ہماری تمام ایجنسیوں کے لوگ اور بڑے ہائی لیول کے لوگ ہونے چاہئیں، میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ اگرسیکڑوں آڈیوز بھی ہوں تب بھی اللہ کے فضل سے ہمارا کوئی لفظ ایسا نہیں ہوگا جس پر ہمیں شرمندگی ہو، ہم وہ کام کرتے نہیں ہیں، ہم نے کسی سے ہیرے کی انگوٹھیاں نہ مانگی ہیں نہ لی ہیں، نہ ہم نے تین قیراط کو پانچ قیراط کروایا ہے، نہ ہم اس قسم کی چیزیں لے کر پالیسیاں بدلتے ہیں یا فائلیں سائن کرتے ہیں، اس لیے ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے، جب ہم نے غلط کیا ہی نہیں ہے تو کوئی کہاں سے بنالے گا، کہاں سے چیز لے آئے گا،ہم نے کوئی القادر ٹرسٹ نہیں بنایا،کوئی 50ارب روپے ہم نے ہضم نہیں کیا ، گورنمنٹ کا ہڑپ نہیں کروایا ، پانچ ارب روپے کی پراپرٹی بنی گالہ میں اور تحصیل میں لے کر، ہم نے کچھ نہیں کیا۔

مریم نواز صاحبہ کو ان کے داماد نے یہ بات کہی ہوگی کہ میں نے ایک پلانٹ انڈیا سے امپورٹ کیا ہے جو آدھا آچکا ہے، پہلے یہ پتا کریں کہ یہ آدھا کب آیا ہے، یہ ہماری حکومت کے دور میں آیا ہے یا اس سے پہلی حکومت کے دور میں آیا ہے جو کہ آدھا آچکا ہے، میں تو ذاتی طور پر اگر یہ بات میرے سامنے ہوتو میں یہ کہوں گا کہ یا تو اسے جو آدھا رہ گیا ہے وہ منگوانے کی اجازت دیں یا پھر جوآدھا آگیا ہے اسے واپس بھیجنے کی اجازت دیں، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آدھا آگیا ہے تو آدھا اب روکا جارہا ہے، چلیں مریم نواز صاحب نے اپنے داماد کی اپنے بیٹے کی، تو وہ رائے جو ہے آپ مجھے بتائیں اس سے بڑھ کر اور گڈگورننس کیا ہوسکتی ہے کہ وزیراعظم اپنا قریب ترین جو رشتہ ہے جو ان کی بیٹی ہے ان کی بات کو بھی اس انداز سےجانچ رہے، کرید رہے ہیں اور یہ کہہ رہ ہیں کہ انہیں سمجھایا جائے گا کہ وہ یہ کام نہ کریں، حالانکہ میں اس بات کا دعویدار ہوں کیونکہ اگر وہ پلانٹ آدھا آچکا ہے تو جو آدھا رہتا ہے اسے منگوایا جائے یا پھر جو آدھا آگیا ہے اسے واپس بھجوایا جائے۔

اہم خبریں سے مزید