قدرت نے اسے خُوب صورت اور دل کش آواز ہی نہیں، موسیقی کے ذوق و شوق سے بھی نوازا تھا۔ اس کے پاس ایک گِٹار تھا، جس کو بجانا وہ جانتا تھا۔ بچپن سے جب وہ پی اے ایف شاہین اسکول ڈھاکا میں پڑھتا تھا، ایک ہی خواہش اس کے دل میں مچلتی رہتی تھی کہ وہ ایک اسٹار ایک گلوکار بنے اور دنیائے موسیقی میں اپنا نام روشن کرے۔
بس اسی خواہش کی تکمیل کے لیے صرف سولہ سال کی عمر میں وہ اس حالت میں گھر سے نِکل کھڑا ہوا کہ اس کے پاس ایک گِٹار، ایک اضافی شرٹ اور ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر تھا، وہ کراچی کے لیے عازم سفر ہوا، جہاں پہنچ کر اس نے کسب معاش کے لیے ملازمت ڈھونڈنی شروع کی۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ اسے طارق روڈ پر کیفے ڈی خان میں گِٹار بجانے کی نوکری مل گئی ، لیکن معاوضہ یہ تھا کہ ہوٹل سے کھانا مفت مل جایا کرے گا۔
عالمگیر نے خدا کا نام لے کر کیفے ڈی خان میں، جو اس زمانے میں شہرکے دانش وروں کا ٹھکانہ تھا، گِٹار بجانے کا آغاز کیا۔ سُننے والے اس کی آوازسے متاثر ہوتے، وہیں دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ تم ٹیلی ویژن پر قسمت کیوں نہیں آزماتے۔ عالمگیر کو یہ مشورہ پسند آیا، یہ 1970ء کا زمانہ تھا،جب پی ٹی وی کراچی اسٹیشن پرخوش بخت عالیہ نوجوانوں کے لیے ’’فروزاں‘‘ پروگرام کیا کرتی تھیں۔ انہیں ایک گِٹار بجانے والے موسیقار کی ضرورت تھی۔ عالمگیر نے کسی طرح آڈیشن دینے والوں میں اپنا نام لکھوادیا۔ ’’فروزاں‘‘ میں تو اسے کام نہ مل سکا، لیکن مشہور میوزک ڈائریکٹر سہیل رعنا نے اسے گٹار بجاتے ہوئے سُن لیا اور اسے بلاکر پیش کش کی کہ وہ اس کے بچوں کے پروگرام میں اپنے گِٹار اور آواز کا جادو جگائے۔
یُوں عالمگیر کو موسیقی کی دنیا میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ عالمگیر کا پورا نام عالمگیر حق ہے۔ وہ 11؍اگست 1955ء کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے شہر رنگ پور میں پیدا ہوا۔ عالمگیر سے پہلے کئی بنگالی گلوکارائیں اُردو گائیکی میں نام کما چلی تھیں۔ مثلاًرونا لیلیٰ، شہناز بیگم اور فردوسی بیگم وغیرہ۔ لیکن عالمگیر پہلا بنگالی تھا، جس نے ان گلوکارائوں سے بھی زیادہ مقبولیت اور ہردلعزیزی حاصل کی۔
عالمگیر کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس نے ملک میں پاپ گائیکی کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے روایتی کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گائیکی مقبول تھی، لیکن عالمگیر نے اس رجحان کے مقابلے میں پاپ میوزک کو مقبول کردکھایا۔ کہتے ہیں وہ گائیکی میں احمد رشد ی اور خصوصی گلوکار ایلوس پریسلے سے متاثر تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمگیر اپنے انداز گائیکی میں سب سے منفرد تھا۔ 1973ء میں اس کا گایا ہوا گیت ’’البیلا راہی‘‘ ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوا اورمقبول ہو گیا ۔’’البیلا راہی‘‘ ایک غیر ملکی گیت کا اُردو ترجمہ تھا۔ پھراس کا دوسرا گیت بھی اُردو ترجمہ ہی تھا ’’پیار ہے زندگی کا گہنا‘‘ یہ بھی ٹی وی کے ناظرین میں پسند کیا گیا اور پھر عالمگیر پر کام یابی اور مقبولیت کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
اس کے گائے ہوئے گیتوں میں ’’یہ شام اور تیرا نام‘‘ سب سے زیادہ مقبول ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے عالمگیر نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ ملک میں ایک نئے انداز کی گائیکی کی داغ بیل پڑ گئی۔ بہت سے نئے گلوکار محمد علی شہکی، حسن جہانگیر وغیرہ ٹی وی کے ذریعے منظر عام پہ آئے اور انہوں نے عالمگیر کے انداز گائیکی کے اثرات قبول کیے۔ عالمگیر نے اُردو کے علاوہ بنگالی گیت بھی گائے اور اس میں نئے تجربے بھی کیے۔ اس کا پہلا بنگالی گیت جو مقبول ہوا ’’آمی بھشائے لی رے‘‘ تھا۔ اس نغمے میں اس نے اُردو اور بنگلہ گیت کو جن کا مفہوم یکساں تھا۔ نہایت متاثر کن انداز میں گا کر ثابت کیا کہ وہ نیم کلاسیکی گائیکی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔
یہ بھٹیاحی گیت تھا، جسے دریا میں ملاح کشتی کو کھینچتے وقت گاتے ہیں۔ اُردو بول یہ تھے’’چاہے آندھی آئے رے، چاہے میگھا چھائے رے، ہم کو تو اس پار لے کے جانا ماجھی رے‘‘ اس کے روایتی موسیقی کے گیتوں میں ایک اور مقبول گیت ’’میں نے تمہاری گاگر سے پانی پیا تھا پیاسا تھا گوری یاد کرو‘‘ تھا۔عالمگیر کو شہرت پاکستان سے ملی، اس کا نام یہیں کی مٹی سے مشہور ہوا، تو اسے اس وطن سے بھی بہت محبت اور عقیدت ہے، چناں چہ اس نے بہت سے عمدہ ملی نغمے بھی گائے ، جن میں ’’خیال رکھنا‘‘ اور ’’میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے‘‘کو زیادہ شہرت ملی۔ اس کی موسیقی کی دنیا میں بہترین کارکردگی پہ حکومت نے تمغہ ٔحسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) عطا کیا۔
عالمگیر نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ ندیم اور شبنم کی سپر ہٹ فلم ’’آئینہ ‘‘ کے لیے اس کا گایا ہوا گیت ’’مجھے دِل سے نہ بھلانا‘‘ آج بھی شائقین میں مقبول ہے۔ عالمگیر نے پاکستان، بنگلہ دیش، امریکا اور مختلف مغربی ملکوں میں سیکڑوں کنسرٹ میں اپنی آواز اور گٹار کا جادو جگایا ہے۔ بدقسمتی سے انہیں کچھ برسوں پہلے ڈاکٹروں نے گردوں کے امراض کی تشخیص کی، لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی نئی نسل میں ہردلعزیز ہیں۔