وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں کشمیر ایشو کے حوالے سے کہنا ہے کہ بھارت کیساتھ بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات واپس لے۔ اقوام متحدہ کی قراداد وں کیمطابق حق رائے دہی یقینی بنانے تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا۔
وزیراعظم پاکستان کے قومی موقف اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کے تناظر میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے عزم کا اظہار کرکے جموںو کشمیر کے مایوس عوام کے دلوں میں امید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ جس پر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیری عوام نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں انٹرنیشنل جوڈیشنل کانفرنس سے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر راجہ سعید اکرم خان نے اپنے تاریخی خطاب میں آزاد کشمیر عدلیہ میں بغیر کسی دباؤ کے میرٹ پر فیصلوں، مسئلہ کشمیرمیں اقوام متحدہ کی قرادادیں اور جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہد اور شہادتوں اور متاثرین منگلا ڈیم کی لازوال قربانیوں جبکہ واپڈا کی ناانصافیوں کیخلاف آواز بلند کرنے پر سول سوسائٹی میں ریاست گیر خراج تحسین کا لامتناعی سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی قیادت میں اوور سیز کشمیریوں، پاکستانیوں اور سکھ کمیونٹی نے نیو یارک میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور عالمی برادری سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مظالم بند کرانے اور حق خودارادیت کا مطالبہ کیا۔ آزاد کشمیر کے سیاسی حالات کا اگر سرسری جائیزہ لیں تو صدر PPP آزاد کشمیر چوہدری یاسین، قائد حزب اختلاف چوہدری محمد لطیف اکبر، سابق وزیراعظم راجہ فاروق حید رخان، اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے ممبران اسمبلی نے وزیراعظم آزاد کشمیر کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کی کردار کشی اور علاقائی تعصب پر مبنی بیان پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اپنے الفاظ پر معافی مانگے ورنہ ریاست گیر احتجاج کریں گے۔
اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے کارکنان اور اپوزیشن لیڈر کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر بھی اپنے سیاسی مخالفین کو سر میں جوتے مارنے کی دھمکیاں ، ڈاکو کے لقب سے مخاطب کرنا ، زکوۃ کی رقم سے کفن میں دفن ہونے، علاقائی قبیلائی اور حسب نسب ایسے زہر آلود بیانیہ کو اپنا کر ریاست کی سنہری روایات اور پر امن ماحول کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ اگر آزاد کشمیر میں پیدا ہونیوالے اس انتشار کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو آج 29ستمبر بروز جمعرات مظفرآباد میں ہونیوالے عمران خان کے جلسے میں دنگا فساد ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم کے اس بیان نے آزاد کشمیر کی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ جس سے گزرنے والے ہر لمحے کیساتھ صورتحال سنگین ہوتے دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ حلقے اسے مغل اور گوجر قبائل میں ٹکرائو اور بعض عوامی حلقے اسے پونچھ اور مظفرآباد کے مابین نفرت کے بیج سے تعبیر کر رہے ہیں۔
تاہم نفرت کے اس بیج کو تناآور درخت بننے ، مزید نفرتیں اور انارکی پھیلنے سے روکنے کیلئے وزیراعظم آزاد کشمیر ، سنجیدہ سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اپنا مثبت و تعمیری کردار ادا کریں۔ اس وقت آزاد کشمیر میں اعلانات کی بھرمار، بیورہ کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ ، وفاق اور آزاد کشمیر کے مابین گریڈ 19اور گریڈ22کے آفیسران کی ٹرانسفر و تعیناتی پر اختلافات ، بلدیاتی انتخابات پر جاری کام میں پیش رفت جبکہ آزاد کشمیر کے سیاسی درجہ حرارت میں اچانک غیر معمولی اضافے کیساتھ ہی حکومت آزاد کشمیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین ’’لفظی جنگ‘‘ شدت اختیار کر چکی ہے۔
اس سلسلہ میں وزیراعظم آزاد کشمیر کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کے 6ممبران کی انہیں ہمائیت و تائید حاصل ہے۔ مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری چوہدری طارق فاروق کا کہنا ہے کہ ہم تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جبکہ اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کی چچی محترمہ شاہدہ صغیر سمیت PTIکے 6 ممبران اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ وزیراعظم PPP یا PMLNسے ہو۔ PTIفاروڈ بلاک سے بھی آزاد کشمیر کا نیا وزیراعظم ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم غلط بیانی کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کے فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا۔
آزاد کشمیر حکومت اور اپوزیشن کے دعوئوں میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے۔ یہ آئندہ واضح ہو جائیگا۔ لیکن ذرائع کیمطابق قائد ن لیگ میاں محمد نوا ز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی اس حوالے سے رابطے میں ہیں۔ جب اوپر سے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا تو آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ من و عن اس فیصلے پر لبیک کہیں گی ۔ 24 ستمبر 2019 کو میرپور میں آنیوالے قیامت خیز زلزلے کی تیسری برسی انتہائی عقیدت و احترام کیساتھ منائی گئی۔ جس میں 40سے زائد افراد شہید اور 1400افراد زخمی ہونے کے علاوہ اربوں روپوں کی املاک کو نقصان ہوا۔ لیکن 3سال گزرنے کے باوجود نہ تو متاثرین زلزلہ کو معاوضہ جات کی ادائیگی کی گئی اور نہ ہی شہداء کی یادگار تعمیر کی جا سکی جس پر اہلیان میرپور میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔