بلوچستان میں نہ تو مخلوط حکومتوں کا قیام کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی مخلوط حکومتوں کے حوالے سے وزرا اعلیٰ کو درپیش مشکلات کوئی نئی بات ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں کبھی ایک سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے لئے اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ملنا ہے ، قریب یہ صورتحال اب تو وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی بنا شروع ہوئی ہے تاہم بلوچستان میں صورتحال اب بھی کچھ یوں الگ ہے کہ یہاں مخلوط حکومت میں ایک ، دو یا تین نہیں بلکہ کئی ایک اتحادی جماعتیں شامل ہوتی ہیں جس کی ایک مثال موجودہ صوبائی حکومت کی ہے جس میں قریب سات اتحادی جماعتیں شامل ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن میں شامل جمعیت علما اسلام کی 11 ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی 10 ، پشتونخوامیپ کی ایک نشست ہے جکہ آزاد نشست پر موجود سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی حمایت بھی اپوزیشن کو حاصل ہے ، وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو جن کا شمار اگرچہ نوجوان سیاستدانوں میں ہوتا ہے لیکن سیاست اور خاص طور پر پارلیمانی سیاست کے نہائت اہم رہنما ثابت ہوئے ہیں وہ نہ صرف اپنی ہی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بناکر وزیراعلیٰ بنے ہیں بلکہ گزشتہ اسمبلی میں بھی نواب ثنااللہ خان زہری کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بناکر وزیراعلیٰ بنے میں کامیاب ہوئے تھے حالانکہ جام کمال خان اور نواب ثنا اللہ خان زہری دونوں مضبوط وزیراعلیٰ تھے، جیسے کہ اس بات کا پہلے بھی زکر آچکا ہے کہ جام کمال خان کا تعلق بھی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے جس سے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کا ہے۔
جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں جہاں جام کمال خان کی حکومت میں شامل جماعتوں نے میر عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دیا تھا وہاں میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام کی خاموش حمایت بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے تاہم دونوں جماعتوں نے اس کا کبھی اقرار نہیں کیا ، میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اپوزیشن کی جماعتوں سے نہائت خوشگوار تعلقات بنائے، میر عبدالقدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ایسی باتیں سامنے آئی تھیں کہ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کا عندیہ دیا تھا تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی کا روز اول سے یہ موقف تھا کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہوگی اور سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کرتی رہی کہ بلوچستان میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ایسا کوئی بھی فیصلہ جب بھی کریں گی تو یہ مشاورت سے ہوگا۔
تاہم چند روز قبل میر عبدالقدوس بزنجو سے جمعیت علما اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے ملاقات کی جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ جمعیت علما اسلام صوبائی حکومت میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے دونوں رہنمائوں کی ملاقات کے بعد جمعیت علما اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے جمعیت بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے ارکان کے ساتھ اسلام آباد میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی ، باخبر حلقوں کے مطابق اسی دوران جب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اسلام آباد کے دورئے پر گئے تو وہاں جمعیت علما اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے اپنی رہائش گاہ پر ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا جہاں جمعیت علما اسلام کی حکومت میں شامل ہونے کے حوالے سے بات چیت ہوئی تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو جب اسلام آباد کا دورہ مکمل کرکے کوئٹہ پہنچے تو صوبائی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ سے کچھ وزرا کو شائد الگ کررہے ہیں اور اس سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 18 ویں ترمیم کے بعد کابینہ میں چونکہ 14 وزرا اور 5 مشیروں کی تعداد مقرر ہے جس سے زیادہ ارکان کو کابینہ میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے یہ اقدام ممکن ہے ، اس دوران بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر منظور احمد کاکڑ کے وزیراعلیٰ کے خلاف کچھ سخت بیانات سامنے آئے جس کے بعد وزیراعلیٰ کی اپنی جماعت کے رہنمائوں اور کابینہ کے ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی اس دوران پارٹی کے سینئر رہنمائوں و ارکان بلوچستان اسمبلی و صوبائی وزرا نوابزادہ طارق مگسی ، ظہور بلیدی عارف جان محمد حسنی ، سلیم کھوسہ سمیت صوبائی وزرا و دیگر سے براہ راست ملاقاتیں اور مشترکہ دوستوں کے ذریعے رابطے ہوئے اسی اثنا میں صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اپنی رہائش گاہ پر وزیراعلیٰ کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے بھی شرکت کی جس کے بعد ان کے بھی گلے شکوے ختم ہوگئے ہیں۔
اس دوران وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے صحافیوں سے بات چیت میں یہ بات واضح کی کہ صوبائی کابینہ سے کسی وزیر کو الگ نہیں کیا جارہا جبکہ صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمٰن کھیتران کی جانب سے بھی یہ وضاحت سامنے آئی کہ سوشل میڈیا پر صوبائی کابینہ سے وزرا کو نکالنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں وزیراعلیٰ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جس کے بعد سنجیدہ سیاسی حلقوں یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ وقت جمعیت علما اسلام کی صوبائی حکومت میں شامل ہونے کا نہیں کیونکہ اگر وزیراعلیٰ اپنی کابینہ سے کچھ وزرا کو الگ نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعیت علما اسلام کی کابینہ میں جگہ بنتی نظر نہیں آتی تاہم اس سلسلے میں اب تک کوئی حتمی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ ہفتہ رفتہ کے دوران جمعہ کو جمعیت علما اسلام کے وزرا کی کابینہ میں شامل ہونے کی توقع تھی تاہم ایسا بھی نہیں ہوا جس کے بعد یہ معاملہ اب تاخیر کا شکار نظر آتا ہے دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچ گئے ہیں جسے سیاسی حلقے اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں تاہم ان کی رائے ہے کہ اس وقت وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کی حکومت مضبوط پوزیشن میں ہے ۔