سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں بھی جاری ہیں اور سیاسی عمل بھی جمود سے نکل آیا ہے سندھ میں بلدیاتی انتخاب کےدوسرے مرحلے کے لیے کراچی کے سات اضلاع سمت قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 237 اور 239 میں الیکشن کا بگل بج چکا ہے تاہم انتخابی مہم میں وہ جوش وخروش نہیں جو دوماہ قبل تھا اپوزیشن جماعتیں الیکشن چاہتی ہیں جبکہ حکومت میں شامل جماعتیں پی پی پی اور جے یو آئی الیکشن کی مخالف ہیں ان کا موقف ہے کہ سندھ آدھا سیلاب میں ڈوبا ہے ایسے میں الیکشن کیسے کئے جاسکتے ہیں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ الیکشن کی خبر سن کر غصہ آجاتا ہے ادھربارش اور سیلابی صورتحال ختم ہونے کے بعد بھی متعدد اضلاع زیرآب آنے کے باعث معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں، ضلع نوشہروفیروز کا ڈسٹرکٹ جیل اب تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور وہاں کے قیدیوں کو بھی خیرپورسکھر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
سندھ میں مچھروں کا آزار ملیریا گیسٹروں کی وباپھیل گئی ہے، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان میں ڈینگی کے مریض بھی ہوسکتے ہیں لیکن ڈینگی ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث ملیریا بخارہی سمجھا جارہا ہے ، گاؤں کے لوگوں کا زمینی راستہ منقطع ہونے کے باعث لوگ شہر آنے اور جانے کے لیے کشتیوں کا استعمال کررہے ہیں ، بارش اور سیلابی صورتحال ختم ہونے کے باوجود عوام کی مشکلات روز بروزبڑھتی ہی جارہی ہیں، بارش کا پانی کھڑا ہونے کے سبب مچھروں اور سانپوں کا راج بھی نظرآرہا ہے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ لوگ مچھروں اور سانپوں سے بچنے کے لیے رات بھر جاگ کر گزار رہے ہیں، کچھ مال مویشی مرچکے ہیں۔
ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عالمی بینک کے اعلیٰ اختیاراتی وفد سے ملاقات میں سیلاب متاثرین کو ریسکیوکرنے اور ان کی بحالی کے حوالے سے 1.1 بلین ڈالرز کا منصوبہ پیش کیا۔ وفد کی سربراہی عالمی بینک کے ریجنل نائب صدرجنوبی ایشیاء مسٹررائسر کررہے تھے، وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ صوبے کے 140,914 مربع کلومیٹر رقبے میں سے 15.39 فیصد یعنی 21,691.97 مربع کلومیٹر اور 66,549 آبادی والے رقبے میں سے18.8فیصد یعنی 12,541.6 مربع کلو میٹر رقبہ شدید بارشوں اور سیلاب سے زیرآب آگیا ہے اور صوبے میں تباہی اتنی شدید ہے کہ لوگوں کی بحالی، زراعت، انفراسٹرکچر کی بحالی اور متاثرین کے لیے آمدنی کا ذریعہ پیدا کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ ہوں گے۔
دوسری طرف سندھ حکومت نے وفاق کی جانب سے متاثرین سیلاب کی امداد کے لیے 15 ارب روپے جاری ناکرنے پرناراضی کا اظہار کیا ہے اور فوری طور پر رقم جاری کرنے کامطالبہ کیا ہے۔سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے وزیراعظم کے دورے کے موقع پر سندھ حکومت نے 50 ارب روپے کی مدد مانگی تھی تاہم وزیراعظم نے 15 ارب دینے کا اعلان کیا تھا باقی رقم سروے کے بعد دینے کا کہا گیا تھا، 20 روز سے زیادہ گزر جانے پر بھی وفاق نے سندھ کوفنڈز جاری نہیں کیے۔ حکومت کے مطابق صوبہ کے متاثرہ اضلاع میں متاثرین کے لئے 2908 ریلیف کیمپ کام کر رہے ہیں۔
ان ریلیف کیمپوں میں 382871متاثرین موجود ہیں متاثرین میں اب تک 318264 ٹینٹ تقسیم کئے گئے ہیں، انہیں 2392722 مچھردانیاں بھی دی گئی ہیں انہیں 842568راشن بیگز بھی دے دیئے گئے ہیں اب تک بارشوں کے باعث 747افراد ہلاک جبکہ 8422 افرادزخمی ہوئے ہیں بارشوں کے دوران صوبہ بھر میں 376574مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں، بارشوں کے باعث 1816044مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے صوبہ میں 3773707 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ بارشوں سے 803 سڑکوں کا 8389 کلو میٹرحصہ تباہ ہوگیا ہے جبکہ 165 پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، بارشوں اور سیلابی پانی سے 2548 سرکاری عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔
حکومتی اعدادوشمار کے علاوہ فلاحی تنظیموں نے بھی اس سے کئی زیادہ امدادی سامان تقسیم کیا ہے تاہم متاثرین سیلاب تاحال امداد نا ملنے کی دہائی دے رہے ہیں اور سندھ کے مختلف اضلاع میں حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کررہے ہیں وزیراعلیٰ کابھی کئی مقامات پر گھیراؤ کیا گیا ہے سندھ پی پی پی سے پہلی بار ناراض نظرآرہا ہے بدین میں حکومت سندھ نے مظاہرین اور دھرنے دینے والوں کو گرفتار بھی کیا ہے بعض حلقے سوال کررہے ہیں کہ امدادی سامان متاثر ین میں اگر تقسیم نہیں ہورہا توپھر کہاں جارہا ہے؟
امدادی سامان کی تقسیم کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں، ادھر حکومت سندھ نے کراچی کے سوا سندھ کے تمام اضلاع کے ترقیاتی فنڈز منجمدکردیئے ہیں۔ رواں مالی سال میں 4 ہزار 158 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 332ارب روپے رکھے گئے ہیں ان میں سے 118 ارب روپے ریلیز کئے جاچکے ہیں جبکہ صرف 20 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اس سے سندھ حکومت کی ترقیاتی منصوبوں میں دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری جانب سندھ متاثرین کی امداد میں کرپشن اور تاخیری حربوں کے خلاف جماعت اسلامی سندھ کی جانب سے کراچی تاکشمور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
کراچی، جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ، قمبر، میرپورخاص،سکھر، لاڑکانہ، شہدادکوٹ، نوشہر وفیروز، ٹھٹھہ، نواب شاہ، ٹنڈوآدم، میرپور خاص، بدین، گولارچی، تلہار ،ٹنڈوباگو اور شادی لارج سمیت سندھ کے مختلف ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز ک پریس کلب اوراہم مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے، جن میں بارش اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی،جبکہ امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بجلی کے بلوں میں میونسپل چارجز اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ناجائز وصولی کے خلاف ”عوامی ریفرنڈم“ میں عوام کی غیرمعمولی دلچسپی، بھرپورشرکت اورمزید لوگوں کی رائے دہی کے عمل میں شمولیت ممکن بنانے کے لیے تین دن کی توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ”عوامی ریفرنڈم“بدھ 28ستمبر تک جاری رہے گا۔
دریں اثناء ریفرنڈم کے تیسرے دن بھی شہر کے تمام اضلاع کے اہم مقامات، بچت بازارسمیت تمام کاروباری مراکز پر ریفرنڈم کیمپوں کے علاوہ شہریوں نے بڑی تعداد میں اپنی رائے کا بھرپور اظہار کیا۔جبکہ پی ٹی آئی نے بھی کراچی مہنگائی کے خلاف مظاہرہ کیا اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی گلزار ہجری میں بھی مہنگائی میں اضافے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔ گلزارہجری میں ہونے والے احتجاج میں پی ٹی آئی کراچی کے جنرل سیکریٹری سیف الرحمن ودیگر رہنما شریک تھے جبکہ ریگل چوک کے مظاہرے میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈرسندھ اسمبلی خرم شیر زمان، آفتاب صدیقی، شہزاد قریشی ودیگر عہدیداران کے علاوہ مردوخواتین کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر خرم شیرزمان نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ امپورٹڈ حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہی نہیں، سیلاب متاثرین امداد کو ترس رہے ہیں، کوئی احتجاج کرے تو اس پر مقدمہ درج ہوجاتا ہے۔