کیف احمد صدیقی
کتنی محنت سے پڑھاتے ہیں ہمارے استاد
ہم کو ہر علم سکھاتے ہیں ہمارے استاد
توڑ دیتے ہیں جہالت کے اندھیروں کا طلسم
علم کی شمع جلاتے ہیں ہمارے استاد
منزل علم کے ہم لوگ مسافر ہیں مگر
راستہ ہم کو دکھاتے ہیں ہمارے استاد
زندگی نام ہے کانٹوں کے سفر کا لیکن
راہ میں پھول بچھاتے ہیں ہمارے استاد
دل میں ہر لمحہ ترقی کی دعا کرتے ہیں
ہم کو آگے ہی بڑھاتے ہیں ہمارے استاد
سب کو تہذیب و تمدن کا سبق دیتے ہیں
ہم کو انسان بناتے ہیں ہمارے استاد
ہم کو دیتے ہیں بہر لمحہ پیام تعلیم
اچھی باتیں ہی بتاتے ہیں ہمارے استاد
خود تو رہتے ہیں بہت تنگ و پریشان مگر
دولت علم لٹاتے ہیں ہمارے استاد
ہم پہ لازم ہے کہ ہم لوگ کریں ان کا ادب
کس محبت سے بڑھاتے ہیں ہمارے استاد