• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے رحمی کی کتاب صنفِ نازک کے ناموں سے پُر

یسریٰ اصمٰی

ایک فلاک شگاف چیخ فضا میں گونجی ،پرندے پھڑپھڑائے ،درختوں نے سرگوشی کی ’’ ایک اور ‘‘ ماحول کا سکوت ٹوٹا؟ نہیں!! یہ آسمان ایسی کئی چیخیں برسوں سے سن رہے ہیں ،یہ عادی ہو گئے ہیں شاید۔ یہ چیخیں، آہیں، آنسو، آخری ہچکیاں کسی سے بھی نہ آسمان گرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے۔ اہل زمین کی زبانوں پر چار دن تذکرہ رہتا ہے اور پانچواں دن کوئی نئی دل دہلانے والی داستان لے کر طلوع ہوتا ہے۔

یوں پچھلی کہانی ذہنوں سے محو ہو جاتی ہے۔نہ سارہ پہلی بار قتل ہوئی ،نہ شاہنواز وہ پہلا درندہ ہے، جس نے اپنی خود غرضی ،سفاکیت، لالچ ،مردانگی کے غرور کی بھینٹ پہلی عورت چڑھائی ہے۔ یہاں تو یہ معمول ہے ۔کہانیوں میں کرداروں کے نام و مقام ہی تو بدلتے ہیں۔ فقط سارہ کی جگہ عینی ، نورمقدم ،حفصہ ،فاطمہ ،عنبرین اور نہ جانے کتنی ہی سیکڑوں لڑکیاں بے رحمی کی اس کتاب میں اپنے نام کا باب رقم کرواتی ہیں۔ 

خوش نصیب ہیں وہ جن کو مرنے کے بعد کسی اخبار کی ایک کالمی خبر یا کسی چینل میں چند لمحے کی جگہ ملتی ہے۔ورنہ بیشتر کے ساتھ ہونے والے بدترین ظلم کا کبھی کسی کو پتا ہی نہیں چل پاتا۔ دل بوجھل ہوتا ہے اور انگلیاں لرزتی ہیں اب تو یوں گھریلو تشدد میں جان سے چلی جانے والیوں کے ذکر پردماغ کسی منطقی انجام کو پہنچنا چاہتے کہ معاشرے کی خوبصورت اکائی گھر کو عقوبت خانہ بننے سے روکنے کے لیے آخر کس نوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے ؟ 

مختلف سروے رپورٹس بتاتی ہیں ،پاکستان میں ستر سے نوے فی صدتک عورتیں کسی نہ کسی قسم کے ذہنی ،جذباتی یا جسمانی تشدد کا شکار ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں خواتین و بچوں پر تشدد کے 52,370 کیس رپورٹ کیے گئے جن میں سے لگ بھگ آٹھ ہزار کے قریب کیس میڈیا کوریج حاصل کر سکے۔ تھامس ریوٹرز فاؤنڈیشن کے ایک حالیہ سروے نے پاکستان کو خواتین کے لیے ’’چھٹا ‘‘خطرناک ترین ملک قرار دیا ,گلوبل جینڈر گیپ 2021 کے مطابق پاکستان 156 ممالک میں سے 153 نمبر پر ہے خواتین پر تشدد کے واقعات میں۔ 

اعداد و شمار بتاتے ہیں رواں سال خواتین پر تشدد کے واقعات کی شرح میں مزید تیزی آئی ہے۔ کس قدر تکلیف دہ حقائق ہیں۔ یہ دل کو چیر دینے والے ،ایک طرف ایسے واقعات دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔ دوسری طرف معاشرتی طور پر آئے دن ایسے کیسز کا منظر عام پر آنا خاندانی نظام پر عدم اعتماد ،گھر کی اکائی سے برگشتہ کرنے کا اور نفسیاتی ہیجان کا سبب بن رہے ہیں۔ پہلے لگتا تھا پاکستان میں اس قسم کے واقعات کی وجوہات تعلیم کی کمی ، معاشرتی ناانصافی ،عورتوں کا مردوں پر انحصار ،اسلامی تعلیمات کی غلط اور ادھوری تشریح، معاشرتی قواعد، سماجی اصول اور غربت ہیں۔

جنھوں نے عورت پر ہاتھ اٹھانا, اس کی عزت ِنفس کو کچل دینا آسان ترین ہدف بنا دیا ہے۔ لیکن پے در پے مختلف واقعات کے تسلسل نے ایک الجھن تو ختم کی کہ یہ کسی مخصوص کلاس یا طبقے کا رویہ نہیں، خواتین کی تکریم کے حوالے سے بلکہ نام نہاد تعلیم یافتہ ،ایلیٹ کلاس میں شمار ہونے والے طبقات میں بھی عورت تمام تر خودمختاری، خوش حالی اپنے حقوق کی آگاہی کے باوجود اسی طرح مظالم کا شکار ہو جاتی ہے۔ 

جیسے لوئر یا مڈل کلاس میں۔ خواتین پر تشدد کسی مخصوص طبقے کا نہیں بلکہ مخصوص ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ غرض یہاں ایک ان پڑھ ،تعلیم یافتہ، غریب امیر ،مراعات یافتہ غیر مراعات یافتہ ،دیندار و لبرل کی تخصیص ہی نہیں۔ یہاں ان جرائم کے پیچھے برسوں سے پرورش پاتی وہ ذہنیت کارفرما ہے جو بتاتی ہے عورت تم سے کم تر ہے۔ اس کو مسل دینا، دھتکارنا, بے عزت کردینا، اس کو تھپڑ مار دینا یہاں تک کہ اس کو قتل کردینا بھی کوئی بڑی بات نہیں، کیوں کہ دنیا کا قانون ہے۔ یہ دنیا طاقتور کی ہے۔ عورت کبھی بہن بن کر وراثت مانگنے پر انتقام کا نشانہ بنتی ہے ،کبھی رشتے سے انکار پر تیزاب سے جلائی جاتی ہے۔ بیوی بنا کر تو لائسنس مل جاتا ہے۔ 

قوانین بنتے ہیں ،بل پاس ہوتے ہیں، ترامیم ہوتی ہیں ،خواتین کے عالمی دن پر پنڈال سجتے ہیں ،کانفرنسیں ہوتی ہیں ،عورت مارچ ہوتی ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہر گزرتا دن ایسے واقعات میں شدت لا رہا ہے۔ ؟ گرچہ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں بڑھتی اخلاقی بے راہ روی، نشہ آور اشیا کا کھلے عام استعمال بھی ایسے واقعات میں اضافے کا ایک سبب ہے، تاہم ان کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات ہوتے ہیں؟ یوں تو قانون کی کتابوں میں عورتوں کے تحفظ، ان پر تشدد کی تعریف سے لیکر سزاؤں کے اطلاق تک سب درج ہے لیکن کیا ان قوانین کی روشنی میں مجرموں کو حقیقتاً قرار واقعی سزا دلوائی جاتی ہے یا انصاف تک رسائی کا نظام اس قدر دشوار بنایا گیا ہے کہ مظلوم اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں دائر کر کے خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ؟

وطن عزیز میں جیسے بیشتر مسائل کی بنیادی وجہ قوانین کے نفاذ میں کوتاہی ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عدم تعاون پر مبنی رویہ اور اسی وجہ سے عوام کی ان پر بے اعتباری، مجرم بااثر ہونے کی صورت میں اس کی پشت پناہی، انصاف کے حصول کا بوسیدہ نظام ہے۔ گھریلو تشدد کے بڑھتے ہوئے کیسز میں بھی ایک سبب یہ ہی ہے، جرم کرنے والا بے خوف ہوتا ہے۔ اگر اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث دس فی صد افراد کو بھی علی الاعلان سزائیِں دی جائیں تو خود ہی معاشرہ عبرت پکڑے گا۔ برصغیر پاک و ہند میں رائج عورت پاؤں کی جوتی کی سوچ اس خطے کے بیشتر طبقوں میں یوں رچی بسی ہے کہ انہیں خود اندازہ نہیں۔ 

ہمارے معاشرے میں رائج ہر گالی ماں بہن بیٹی بیوی کو لے کر دی جاتی ہے خود ہی عیاں ہے کہ ہم نہ نہ کر کے بھی کس ذہنیت کے زیر اثر پروان چڑھے ہیں۔ خود ہم میں سے بیشتر مائیں اپنے بچوں کی جسمانی نشوونما پر تو بھرپور توجہ دیتی ہیں لیکن ان کےذہنی و فکری تربیت کے حوالے سے آنکھیں بند کیے رکھتی ہیں۔ گھروں میں عموما سکھایا ہی نہیں جاتا کہ عورت کی عزت کیسے کی جاتی ہے, اسلام میں مرد کو ایک درجہ قوی کہا گیا ہے ,مرد گھر کے حاکم ہیں, عورتیں ان کی رعیت ہیں یہ تو بچے کے کان میں انڈیلا جاتا ہے لیکن اسلام اس قوامیت اور حاکمیت کے عوض مرد پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، قوامیت کی درست تشریح ہے کیا۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے کس قدر سخت تاکید ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے گھریلو تشدد اور عدم برداشت کے رویوں کے سدباب کے لیے قانونی, سماجی و معاشرتی ہر سطح پر کوششیں کی جائیں، درسی کتب میں غیر ضروری قسم کے ردوبدل کے بجائے انسانی تربیت، گھر کی اکائی کی اہمیت افادیت اور اس ادارے کو بہتر انداز میں لے کر چلنے کے حوالے سے اسباق شامل کیے جائیں ۔مرد و عورت کے بیچ حقوق فرائض کا ایک جو پورا نظام اسلام ہمیں دیتا ہے۔ اس پر مضامین شامل ہوں۔ 

کالجز اور جامعات میں ان موضوعات پر ورکشاپس اور کاؤنسلنگ کا کوئی باقاعدہ نصاب وضع کیا جائے، تاکہ تعلیمی زندگی سے نکل کر جب یہ طلبہ و طالبات عملی زندگی میں قدم رکھیں تو پورے شعور آگاہی اور خداخوفی کے ساتھ رکھیں۔ لیکن یہ سب کون کرئے گا؟ حکمران تو سیاست میں مصروف ہیں اور عوام ہر روز بڑھتی ہوش ربا مہنگائی سے نمٹنے میں۔ ایسے میں اس زخمی موضوع پر بات کون کرئے گا۔