• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثابت کرنا ہوگا کہ حالیہ ترامیم سے نیب قانون بے اثر کیسے ہوا ؟ چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب (ترمیمی) آرڈیننس 2022 کے خلاف پی ٹی آئی کے سربراہ ،عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ درخواست گزار کو ثابت کرنا ہوگا کہ حالیہ ترامیم سے نیب قانون بے اثر کیسے ہواہے ؟ یہ بھی بتانا ہو گا کہ حالیہ ترامیم بنیادی انسانی حقوق سے متصادم کیسے ہیں؟ اس معاملے میں صرف بنیادی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی کو دیکھنا ہے۔

 چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی اسپیشل بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ نیب قانون کا مقصد عوام کے نمائندوں اور عہدیداروں کا احتساب کرنا ہوتاہے، قانون کی مختلف شقوں کے ذریعے عوامی عہدیداروں کوجواب دہ بنایا گیا ہے.

انکا کہنا تھا کہ نیب قانون کی جن شقوں کو عوامی عہدیداروں پر لاگو کیا گیا ہے ،سپریم کورٹ پہلے ہی اسفند یار ولی کیس میں ان تمام شقوں کا جائزہ لے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بننے کے ساتھ ہی احتساب کا عمل شروع ہوگیا تھا، احتساب کے قانون کی تاریخ 1947 سے شروع ہوتی ہے اور مختلف اوقات میں عوامی عہدیداروں کے احتساب کیلئے مختلف قوانین رائج کیے گئے ہیں، قومی احتساب آرڈیننس بھی اسی عمل کا تسلسل تھا اور جب نیب آرڈیننس آیا تو وہ احتساب آرڈیننس کی ہی توسیع تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان بننے سے لیکر آج تک کے احتساب کے قانون میں وقتی ضرورتوں کے مطابق ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔

 فاضل وکیل نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر وفاق نے جواب جمع کروانے کا کہا تھا لیکن ابھی تک تو نیب کا موقف بھی ریکارڈ پر نہیں آیا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اس کیس میں نیب کا موقف آنا ضرروی ہے ،معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا نیب علیحدہ موقف اپنائے گا،جس پرفاضل چیف جسٹس نے کہا ہمارے پاس ابھی تک وفاق کا جواب نہیں آیا ہے جبکہ ا ٹارنی جنرل بھی موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ اٹارنی جنرل کے دلائل کو اپنائینگے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب کی جانب سے یہ زبانی طور پر کہا گیا تھا ابھی تحریری طور پر کچھ نہیں آیا ہے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ وہ مزید کتنا وقت لیں گے، تو انہوںنے کہاکہ انھیں دلائل کیلئے دو دن چاہئیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت رواں ہفتہ کے دوران اس کیس کی مزید دو روز (بدھ اور جمعرات) سماعت کریگی اور پھر اگلے ہفتے سماعت کی جائیگی۔ بعد ازاں کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی۔

اہم خبریں سے مزید