خیبرپختونخوا کے سیاحتی علاقے سوات میں طالبان کی واپسی کے حوالے سے حالیہ اطلاعات اور سوات سمیت صوبے کے دیگراضلاع میں سرمایہ داروں وار کاروباری شخصیات کو بھتے کی بڑھتی ہوئی کالیں اور اور سیکورٹی اہلکاروں کونشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی غمازی کرتا ہےکہ صوبے میں امن وامان کے حوالے سے سب اچھا نہیں ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے ان واقعات کی روشنی میں اقدامات اٹھانے کی بجائے ان واقعات پر آنکھیں بند کرکے ایک دوسرے پرالزام تراشی شروع کر رکھی ہے۔
ہفتہ رفتہ کے دوران سوات کے عوام ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے جوسوات میں امن قائم کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کررہے تھے اس احتجاجی مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایوب اشاڑی، این ڈی ایم کے سربراہ محسن داوڑ اور منظور پشتین سمیت دیگر شامل تھے انکا کہنا تھا کہ سوات میں وام کی بے پناہ قربانیوں کی بدولت امن قائم ہوا ہے اب اسے کسی صورت خراب ہونے نہیں دیں گے سیکورٹی اداروں کے متحرک ہونے کے باوجود واقعات رونماء ہونا ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پولیس کو اختیارات دی جائیں تا کہ وہ بدامنی کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے ۔اسی طرح سوات اور دیگر اضلاع میں سرمایہ داروں اور کاروبار ی لوگوں کو بھتے کی کالیں موصول ہورہی ہیں ۔اسی ہفتے کرم اور کوہاٹ میں پولیس اور سیوکرٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا پے درپے کے یہ واقعات اس بات کی نشانی ہے کہ پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال ایک بار پھر سے تیزی سے بگڑ رہی ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس پر آنکھیں بند کرکے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کررکھی ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن ، کوہاٹ اور ضم قبائلی اضلاع میں حالیہ رونماء ہونیوالے واقعات کو عوام 2007کے واقعات سے تشبیہ دے رہے ہیں اور خوف زدہ ہیں کہ کہی وہ دور واپس نہ آئے کیونکہ سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے بعض دیگر اضلاع میں طالبان کی حالیہ واپسی کی اطلاعات کےبعد اب وہا ں طالبان کی جانب سے بعض علاقوں میں باقاعدہ گشت کرنےاور چوکیاں قائم کرنےکی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں ،اگرچہ سیکورٹی ادارے اور صوبائی حکومت ان اطلاعات کی تردید کرتی ہےمگر واقفان حال کے مطابق یہ سب کچھ تو وزیراعلیٰ کے حلقے میں ہی دیکھا گیا ہے۔
سال 2008سے صوبے میں شروع ہونےوالے دہشت گردی کا یہ نہ ختم ہونےوالا خوفناک سلسلہ 2013کے انتخابات کے بعد قدرے رک گیاتھا اور ایسے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن اب ایک بار پھر سے ماضی کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے لئے افغانستان فرار ہونے والے طالباں اور عسکریت پسندوں کو پھر سے امپورٹ کرکے پرانا کھیل دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،یہی وجہ ہےکہ عوام امن کے قیام کیلئے سڑکوں پر نکلنے پر مجبورہوئے ہیں، صوبائی حکومت میں وزیراعلیٰ سمیت کابینہ میں اکثریت کا تعلق سوات سے ہے جہاں اس وقت عوام خوف میں مبتلا ہیں سوات میں عوام آئے روز سڑکوں پر نکل کر قیام امن کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قیام امن کیلئے اپنے ہزاروں رشتہ داروں کی قربانی دینے کے بعد بدامنی کو بڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے، حکومت کو چاہئے کہ ملاکنڈ ڈویژن کے پہاڑوں میں چھپے شدت پسندوں کے خلاف موثر کاروائی کرے ۔ جہاں عوام قیام امن کیلئے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں وہاں صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی صوبے میں بڑھتی ہوئے دہشت گردی کے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں صوبائی اسمبلی میں کئی ارکان اسمبلی نے صوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں صوبے میں دہشت گردی کے واقعات پر تفصیلی بات کی بعض اراکین کا کہنا تھا کہ سال رواں کے دوران ہونےوالے 400حملوں میں 300افراد جان بحق ہوئے ہیں، ان حملوں میں امن کمیٹیویوں کے ممبران ، ارکان اسمبلی، سیاستدان اور جرگہ ممبران کو نشانہ بنیا گیا۔
اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردارحسین بابک کا کہنا تھا کہ کئی ارکان اسمبلی کو شدت پسندوں کی جانب سے بھتے کی کالیں ملی ہیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کے بعض ارکان نے بھتے کی رقم بھی دی ہے ،ان کا کہنا تھا کہ تاجروں اور کاروباری طبقے کو براہ راست بھتے کی کالیں مل رہی ہیں کئی نے رپورٹ بھی درج کرائی ہے لیکن اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ تاہم حکومت کی جانب سے تادم تحریر قیام امن کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات سامنے نہیں آئے جسکی وجہ سے سوات اور ضم قبائلی اضلاع کے عوام مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔
اراکین صوبائی اسمبلی نے جہاں اجلاس میں صوبے میں امن امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا وہاں صوبے کے بقایا جات اور صوبے میں گیس اور بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ پر بھی وفاقی حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا ،اور حکومت اورحزب اختلاف صوبے کے وسائل کی مد میں وفاق کے ذمہ واجبات کی ادائیگی کیلئے متحد نظر آئے اور صوبے کو تمام واجبات کی فوری ادائیگی کے حوالے سے پیش کردہ چار قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے وفاق پر زور دیا کہ وفاقی حکومت نے30اگست 2012 میں پٹرولیم پالیسی کی منظوری دی جس کے تحت دریافت شدہ آئل پر وینٹ فارلیوی وفاقی وصوبوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے چالیس ارب کی رقم واجب الاداہیں مذکورہ رقم وفاق کی پالیسی کے تحت صوبائی حکومت کو جلدازجلدفراہم کی جائے، یہ قراداد صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے ایوان میں قرارداد پیش کیا تھا انکا کہنا تھا کہ آئین آرٹیکل161ون بی کے تحت فیڈرل ایکسائزڈیوٹی مرکزی حکومت وصول کرکے صوبوں کو دینے کی پابندی ہے 18ویں ترمیم کے دس سال گزرنے کے باوجود آرٹیکل پر عمل درآمد نہیں کیاگیاجوکہ صوبوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
ادھر ایک طرف صوبے میں حالیہ سیلاب کی تباہی نے سوات ، چارسدہ اور نوشہرہ سمیت بعض دیگر اضلاع کے شہریوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے وہاں خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ وفاق کے روئیے کے باعث صوبے میں آٹا بحران نے بھی سر اٹھا لیا ہے اور آٹے کے بحران میں روز بہ روز شدت آرہی ہے ،جسکی وجہ سے آٹے کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں اور حکومت کوسرکاری نرخوں پر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کا منصوبہ بھی دم توؑڑتا جارہا ہے۔