بلوچستان کا سیاسی ماحول ان دنوں ایک بار پھر گرم ہے ، گزشتہ چند روز کے دوران بلوچستان میں سیاسی حوالے جو کچھ ہوا اور سیاسی رہنماوں کے دوران جو ملاقاتیں ہوئیں وہ نہ صرف سیاسی بلکہ عوامی حلقوں میں بھی زیر بحث ہیں ، گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، یوں تو سیاسی رہنماوں کی ملاقاتیں کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں ہوتی اور پھر اگر ملاقات ایک ہی جماعت کے دو رہنماوں میں کے درمیان ہو تو عام طور پر یہ نہ تو کوئی خبر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے جس کا زکر کیا جائے لیکن سابق اور موجودہ وزیراعلیٰ کی ملاقات دیگر سیاسی ملاقاتوں سے بالکل مختلف تھی کیونکہ صرف ایک سال قبل اکتوبر کے مہینے میں میر عبدالقدوس بزنجو اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تھے۔
جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل نہ صرف صوبے میں ایک طویل عرصے تک سیاسی ماحول گرم رہا تھا بلکہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو اور جام کمال خان کے درمیان ایک واضح دوری نظر آئی، چند ماہ قبل وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی صدر اور اپنی کابینہ میں شامل سنیئر صوبائی وزیر سردار محمد صالح بھوتانی کی تجویز پر ضلع لسبیلہ کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا اضلاع کی تقسیم بھی یوں تو معمول کی بات ہوتی ہے۔
جام کمال خان بھی اپنے دور اقتدار میں نئے اضلاع بناچکے تھے لیکن ضلع لسبیلہ کی دو اضلاع میں تقسیم کی نہ صرف جام کمال خان کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی بلکہ ایک سیاسی حلقے نے بھی اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا تھا، یہاں یہ امر واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور سردار محمد صالح بھوتانی دونوں کا تعلق لسبیلہ سے ہے اگرچہ دونوں رہنماوں کے حلقہ انتخاب الگ الگ ہیں اور بلوچستان کو صوبہ کا درجہ ملنے کے بعد سے لیکر 2018 کے انتخابات تک دونوں حلقوں سے جام کمال خان اور سردار محمد صالح بھوتانی اور ان کا خاندان کامیاب ہوتا آیا ہے۔
جام کمال خان سے قبل ان کے والد اور دادا بھی بلوچستان اسمبلی کے رکن اور وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے ہیں اسی طرح سردار محمد صالح بھوتانی اپنی حلقے سے ہر بار الیکشن جیت کر رکن بلوچستان اسمبلی بنتے رہے ہیں جبکہ مذکورہ حلقے سے دو بار ان کے چھوٹے بھائی موجودہ رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی صوبائی اسمبلی کے رکن اور اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی بھی رہ ہوچکے ہیں ، جام کمال خان اور سردار محمد صالح بھوتانی کے انتخابی حلقے الگ ہونے کے باوجود دونوں رہنما سیاسی حوالے سے ایک دوسرئے کے حریف سمجھے جاتے ہیں ، ضلع لسبیلہ کو دو حلقوں میں تقسیم کیے جانے کے فیصلے کو بھی بعض سیاسی حلقوں نے سردار بھوتانی کی نہ صرف سیاسی حوالے سے بلکہ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بھی ان کی اہم کامیابی قرار دیا تھا۔
تاہم وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال خان سے کوئٹہ میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں اعتراف کیا کہ ضلع لسبیلہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے حوالے سے ان سے جلد بازی میں کمزوری ہوئی جام کمال خان کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ وزیراعلیٰ بزنجو ، جام کمال خان اور سردار بھوتانی تینوں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیئر رہنما ہیں اور اگرچہ وزیراعلیٰ بزنجو نے ضلع لسبیلہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ واپس لینے کا کوئی باضابطہ اعلان تو نہیں کیا لیکن سنجیدہ سیاسی حلقے وزیراعلیٰ بزنجو کے اس بیان کو جام کمال خان کی کامیابی قرار دئے رہے ہیں ساتھ ہی یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ ان کا یہ بیان سینئر صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی کی ناراضی کا باعث بھی بن سکتا ہے جس سے ان کےت لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
تاہم اب تک اس سلسلے میں سردار بھوتانی کا موقف سامنے نہیں آیا جیسا کہ اس بات کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان کا سیاسی ماحول گرم ہے اس میں اچانک تیزی اس وقت آئی جب صوبائی اسمبلی میں عددی اعتبار سے بڑی اپوزیشن جماعت جمعیت علما اسلام کی حکومت میں شمولیت کی باتیں سامنے آئیں اور اس سلسلے میں نہ صرف جمعیت علما اسلام کے صوبائی سطح پر اجلاس ہوئے بلکہ جمیت کی صوبائی قیادت کے مرکزی قائد مولانا فضل الرحمٰن اور سردار اختر مینگل سے بھی ملاقاتیں ہوئیں ، تاہم جمعیت علما اسلام کی صوبائی حکومت میں شامل ہونے کی باتیں جس تیزی سے سامنے آئیں اتنی ہی جلدی خاموشی چھاگئی ہے ، اس ہی دوران وزیراعلیٰ بزنجو کی کراچی میں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل بڑی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے بھی ملاقات ہوئی جسے سیاسی حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا گیا اس دوران سردار اختر مینگل کا موقف سامنے آگیا کہ حکومت میں شامل ہونے کی انہیں کوئی جلدی نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ جمعیت علماء اسلام اور بی این پی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ صوبائی حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات میں بھی بلوچستان حکومت میں شامل ہونے کے حوالے سے تمام پہلووں کا جائزہ لیا گیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں حکومت میں شامل ہونا بہتر ہے یا نقصان دہ ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے ایسا نہ ہو کہ ہم بھی جانے والوں میں شمار ہوں، سردار اختر مینگل نے وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے درمیان گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے کہا کہ یہ اچھی بات ہے سیاسی لوگوں میں ملاقاتیں ہونی چاہیے لیکن وزیراعلیٰ کو بھی مشکل وقت میں ساتھ دینے اور ان کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے والوں کا خیال رکھنا ہوگا کہیں انہیں کشتی سے اتار کر وہ خود ہی ان کی کشتی میں سوراخ نہ کر بیٹھیں ، سردار اختر مینگل کے۔
اس بیان کو سیاسی حلقوں میں اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے ، ملاقاتوں کے جاری سلسلے میں سردار اختر مینگل سے بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما و چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بھی ملاقات کی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سابق سینیٹر روزی خان کاکڑ و پارٹی کے سابق صوبائی صدر حاجی علی مدد جتک نے کوئٹہ میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان سے ملاقات کرکے انہیں آصف علی زرداری کا اہم پیغام پہنچایا۔