ملتان کے قومی حلقہ 157 کے ضمنی انتخاب میں دس دن باقی رہ گئے ہیں، الیکشن مہم جو انتخاب ملتوی ہونے کی وجہ سے سرد پڑ گئی تھی، اب ایک بار پھر اس میں گرما گرمی دیکھنے میں آ رہی ہے ، سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی ملتان بیٹھ کر الیکشن مہم چلا رہے ہیں اور دونوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف رہتا ہے، اس حلقہ کے دونوں امیدوار علی موسی گیلانی اور مہر بانو قریشی پس منظر میں چلے گئے ہیں اور سامنے دونوں مخدوموں کا مقابلہ ہو رہا ہے، مہربانو قریشی کی انتخابی مہم چلانے کے لئے اسلام آباد سے پی ٹی آئی کی مرکزی خواتین رہنما ملتان پہنچیں ، جن میں ویمن ونگ کی صدر کنول شوذب بھی شامل تھیں۔
تاہم وہ خواتین کے جلسوں اور کارنر میٹنگز تک محدود رہیں ، مردوں کی انتخابی مہم شاہ محمود قریشی اور زین قریشی ہی چلا رہے ہیں، اس سارے منظر نامے میں ملتان کی سیاست دو خاندانوں کے درمیان محدود ہو کر رہ گئی ہے ، البتہ شاہ محمود قریشی ملتان میں بیٹھ کر قومی سطح کے واقعات اور مسائل پر بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں، سائفر کے معاملے پر انہوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اس کی حقیقت سے انکار کر کے حکومت درحقیقت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ سائفر موجود ہے اور رجیم چینج میں اس کا بڑا کردار رہا ہے ، ادھر سید یوسف رضا گیلانی تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سائفر بیانیہ میں پی ٹی آئی کا جھوٹ بے نقاب ہوچکا ہے ، دونوں شخصیات اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ انہیں سرائیکی تنظیموں کی حمایت حاصل ہو جائے۔
اس حوالے سے سید یوسف رضا گیلانی اس نقطہ نظر کے زیادہ قریب ہیں جو سرائیکی قوم پرست جماعتوں کا رہا ہے، سرائیکی پارٹی جو سرائیکی تنظیموں میں سب سے سے قدیمی خیال کی جاتی ہے اور جس کے کے بانی تاج محمد خان لنگاہ تھے ، اس نے سید علی موسیٰ گیلانی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ، اس سلسلہ میں سرائیکی پارٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر نخبہ لنگاہ کی سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی ،جس میں اس بات پر اکتفا کیا گیاکہ تحریک انصاف نے اپنے دور میں علیحدہ صوبہ کے نام پر جنوبی پنجاب کے عوام کو بیوقوف بنایا ہے، بجائے علیحدہ صوبہ دینے کے سیکرٹریٹ کا اعلان کرکے سرائیکی صوبہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اگر چاہتی تو علیحدہ صوبہ کابل اسمبلی سے منظور کرا سکتی تھی ، کیونکہ انہوں نے بزور اکثریت الیکڑانک ووٹنگ مشین ، اوورسیز پاکستانیوں کی انتخابات میں ووٹنگ کا حق سمیت دیگر بلز منظور کرائے ، لیکن چونکہ تحریک انصاف علیحدہ صوبہ بنانا ہی نہیں چاہتی اور اس کے نام پر جنوبی پنجاب کے عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے اس لیے اس حوالے سے کنفیوژن پھیلایا گیا ، دو دو سیکریٹریٹ قائم کئے گئے ، حالانکہ صوبہ پہلے بنتا ہے ،اس کے بعد سیکریٹریٹ بنایا جاتا ہے ، جبکہ یہاں ایک کی بجائے دو سیکریٹریٹ بنا کر جنوبی پنجاب صوبہ کی یک جہتی کو نقصان پہنچایا گیا ، اس کنفیوژن کی وجہ سے صوبہ بننے کی بجائے ایک ایسی تقسیم پیدا ہوگئی، جسے آئینی لحاظ سے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ملک میں کسی صوبہ کے دو سیکریٹریٹ نہیں ہیں، سیکرٹریٹ ایک ہی ہوتا ہے ، جس طرح صوبہ کی اسمبلی ایک ہوتی ہے ،ڈاکٹر نخبہ لنگاہ نے اس موقع پر کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی حمایت کی ہے۔
اس لیے انہوں نے پیپلزپارٹی کے امیدوار سید علی موسی گیلانی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، سید یوسف رضا گیلانی نے تحریک انصاف کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے ہیں، شاہ محمود قریشی کبھی ان کا جواب نہیں دیتے، البتہ علی موسی گیلانی پر ایفیڈرین کیس میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر اور سینٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہونے کی باتیں کر کے سکور برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم کچھ سرائیکی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرکے مہربانو قریشی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ، اس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ رانا محمد فراز نون نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات بعد ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے ،اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی وسیب کی سب سے بڑی جماعت ہے، جو علیحدہ صوبہ کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سرائیکی صوبہ کے قیام کے لئے ایس ڈی پی کے کردار کو سراہتے ہیں اور اسے اس معاملہ میں ایک بڑا سٹیک ہولڈر تسلیم کرتے ہیں ، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف دوبارہ اقتدار میں آ کر سرائیکی جماعتوں کے ساتھ مل کر صوبہ کے قیام کے لیے کوشش کرے گی، تاہم یہاں کے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس الیکشن تک محدود ہے، بعد میں صوبہ کے حوالے سے وہی لاتعلقی نظر آئے گی، جو جنوبی پنجاب کے کروڑوں عوام کا مقدر رہی ہے۔
دوسری طرف جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسانوں کی ایک بڑی تعداد گذشتہ ہفتہ اسلام آباد پہنچیں اور مطالبات کے حق میں دھرنا دیا، ان کا شت کاروں کا مطالبہ تھا کہ بجلی اور کھاد کی قیمتیں کم کی جائیں ، کسانوں کو ٹیوب ویل کے لیے سستے ٹیرف پر بجلی فراہم کی جائے، گندم اور گنے کا ریٹ چار ہزار روپے فی من کیا جائے اور اور زرعی رقبوں پر ہاؤسنگ کالونیوں کے قیام کو روکا جائے، وفاقی حکومت کا موقف یہ تھا کہ سوائے بجلی کے باقی معاملات صوبوں کے اختیار میں ہیں، کیونکہ بجلی کے لئے فیول مہنگے داموں خریدا جا رہا ہے، اس لیے حکومت اس کے ٹیرف میں فی الوقت کمی نہیں لاسکتی، تاہم معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اگر اقتصادی لحاظ سے خود کفیل بنانا ہے ، تو اس کے لیے زرعی شعبہ کو اہمیت دینا ہو گی، کیونکہ اس وقت بھی ملک کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زرعی شعبہ پر ہے، جہاں تک کسانوں کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز نہ بنائی جائیں، تو یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔