• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت کے قدم مضبوط: عمران کی مایوسی میں اضافہ

بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ماند پڑنے والی سیا سی سر گر میاں اب پھرنہ صرف بحال ہوگئی ہیں بلکہ سیا سی درجہ حرارت بلند ہوگیا ہے۔ عمران خان اور حکومت کے درمیان فائنل میچ جلدشروع ہونے والا ہے۔پی ٹی آئی کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان الیکشن کا مطالبہ منوانے کیلئے رواں ہفتے اسلا م آ باد پر چڑھائی کیلئے فائنل کال دینے والے ہیں ۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک دس اپریل کو کامیاب ہوئی تھی اور گیارہ اپریل کو شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ 

عمران خان نے اسی دن قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ملک میں فوری الیکشن کرانے کا مطالبہ کر دیاتھا۔ ملک بھر میں جلسے کرنے کے بعد انہوں نے 25مئی کو اسلام آ باد کیلئے فائنل کال دی تھی مگر وہ اس کال سے نتائج حاصل کرنے میں نا کام رہے۔ وہ دو بارہ اسلام آ باد آنے کا علان کرکے چلے گئے لیکن اس کیلئے سیا سی ماحول نہ بن سکا ۔ پہلے وہ ضمنی الیکشن کی مہم میں مصروف ہوگئے اور اس کے بعد بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے رک گئے۔ اب انہوں نے دو بارہ کمر کس لی ہے اور اس ہفتے وہ قوم کو فائنل کال دینے والے ہیں۔ دراصل جوں جوں وقت گزر رہا ہے شہباز شریف کی مخلوط حکومت اپنے پائوں مضبوطی سے جما رہی ہے۔

پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کو بنے ہوئے اب چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی مایوسی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان کا پہلے دن سے یہ ہدف تھا کہ نومبر کی اہم تقرری شہباز شریف نہ کرسکیں ۔ فوری انتخابات ہوں اور ان کے نتیجے میں انہیں حکومت ملے تاکہ وہ خود یہ تقرری کرسکیں مگر یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اب وقت بہت کم رہ گیا ہے اور ان کے دباؤ کامو مینٹم بھی بر قرار نہیں رہ سکا۔ 25مئی کی پسپائی نے ان کے اور ان کے کا رکنوں کے حوصلے پست کردیے تھے۔اب وہ نئے سرے سے اپنی طاقت جمع کرکے نئی صف بندی کر رہے ہیں تاکہ فیصلہ کن معرکہ لڑا جا سکے۔

اب ان کا ہدف یہ ہے کہ اگر وہ کامیاب چڑھائی کرکے فوری الیکشن کا مطالبہ منوانے میں کا میاب ہوجاتے ہیں تو کم ازکم نومبر کی اہم تقرری شہباز شریف کی بجا ئے نگران وزیر اعظم کے ہاتھ میں آ جا ئے لیکن انکی اس خواہش کی کی تکمیل کے امکانات بھی بظا ہر کم نظر آ رہے ہیں۔ دراصل چھ ماہ میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا ہے۔ مخلوط حکومت کے ابتدائی مہینے مشکل کے تھے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان آ یا۔ ڈالر بے لگام ہونے ‘ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی اور گیس کے علاوہ اشیائے خور د نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے عوام میں حکومت غیر مقبول ہوئی ہے۔ 

حکومت کا یہ موقف اپنی جگہ کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ عمران حکومت نے کیا تھا اور انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے معاہدہ بحال کیا ہے مگر بہر حال اس کے سیا سی قیمت انہیں ادا کرنا پڑ رہی ہے جس کے ازالہ کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت مہنگائی کے جن کو قابو میں لائے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ڈالر کو کنٹرول کیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی لا ئی گئی ہے مگر ابھی یہ ریلیف کم ہے۔ اصولی طور پر ڈالر اسی شرح پر واپس لانا چاہئے جہاں عمران خان چھوڑ گئے تھے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی بھی خود بخود کم ہو جا ئے گی۔

عمران خان بھی اب مہنگائی کو اپنا بیانیہ بنا ر ہے ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد ان کا بیانیہ یہ تھا کہ امریکی سازش کے نتیجے میں یہ امپورٹڈ حکومت بنی ہے۔ ڈپلومیٹک سائفر پر عمران خان کی آڈیو لیکس سامنے آ نے کے بعد یہ بیانیہ اب تقریباً دفن ہو گیا ہے بلکہ انہیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں کیونکہ وفاقی کا بینہ نے ایف آئی اے کو اس آڈیو لیکس کی با ضابطہ انکوائری کا حکم د یدیا ہے۔ ایف آئی اے نہ صرف عمران خان بلکہ ان کے رفقاء شاہ محمود قریشی ‘ اسد عمر اور اعظم خان کو بھی شامل تفتیش کرے گی۔ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کاروائی کی جا ئے گی۔

وزیر اعطم شہباز شریف اور ن لیگ کی قیادت نے اب عمران خان کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کرلی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اب پہلے سے زیادہ پر اعتماد نظر آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے۔ عمران خان نے مسلسل غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد کھو دیا ہے۔ شہباز شریف کو سیلاب کی قدرتی آفت نے سیا سی بقا سے نوازا ہے ایک جانب سیلاب کی وجہ سے عمران خان کی تحریک کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری جانب انہیں عالمی برادری نے مالی سپورٹ کی یقین دہانی کرادی ہے۔ شنگھائی تعاون کونسل کے سر براہ اجلاس اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عالمی رہنمائوں سے ملا قاتوں نے ان کے اعتماد کو جلا بخشی ہے۔ 

پاکستان سفارتی تنہائی سے باہر نکلا ہے۔ شہباز شریف نے امریکی حکومت سے تعلقات اچھے کرلئے ہیں وہ خاص طور پر اپک امریکہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کیلئے امریکی سفاتخانے گئے ۔ عالمی مالیاتی اداروں نے قرضوں میں رعایت اور مزید امداد کا عندیہ دیدیا ہے جس سے حکومت مالی دبائو سے نکل جا ئے گی۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے حکومتی اتحاد کا یہ موقف ہے کہ ہم الیکشن مقررہ وقت پر کرائیں گے اور اسمبلی اپنی آئینی مدت پو ری کرے گی۔ 

عمران خان کے پاس اب دو ہی آپشن ہیں ۔ پہلا یہ کہ یو ٹرن لیتے ہوئے قومی اسمبلی میں وا پس چلے جائیں ۔ سپر یم کورٹ اور اسلام آ باد کے چیف جسٹس صا حبان نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔ پارٹی کے اندر سے بھی عمران خان پر دبائو ہے کہ اسمبلی واپس جائیں کیونکہ ان کے حلقے کی سیا ست خطرے سے دو چار ہے۔ عمران خان بھی ذہنی طور پر اس کیلئے تیار ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اسمبلی میں مشروط واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ اسلام آ باد میں اتنی بڑی تعداد میں دھرنا دیا جائے جس سے حکومت کو فوری الیکشن کیلئے دبائو میں آ جا ئے۔عمران خان نے اب یہ سیا سی جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا ہےکیونکہ انہیں یہ ڈر ہے کہ انہیں نا اہل نہ کر دیا جائے۔

اس مرتبہ انہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ پنجاب میں ان کی اتحادی حکومت ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے وسائل استعمال کرکے وہ بڑا سیا سی پاور شو کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اس دوران حکمران اتحاد کی کوشش ہوگی کہ پنجاب میں پرویز الہیٰ کی حکومت کو گر ادیا جا ئے۔عمران خان کیلئے پرابلم یہ ہے کہ اب تک انہوں نے جتنے دھرنے دیے وہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ سے دیے اب پہلی بار انہیں اپنے بل بوتے پر یہ سیا سی جنگ لڑنی ہےجس کا انہیں تجربہ نہیں ہے۔ 

ان کی کا میابی کا انحصار دھرنے کے شرکاء کی تعداد اور آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال کے بعد انکے حوصلے پر ہے۔ یہ دھرنا تصادم کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے ایسی صورت میں اگر رینجرز ک استعمال کیا گیا تو عمران خان کیلئے مقابلہ کرنا آسان نہیں رہے گا۔ تصادم ہواتو حکومت کیلئے بھی مشکل بن سکتی ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے توسط سے مذاکرات کی کھڑکی کھل جا ئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں الیکشن مارچ میں بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اہم مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔نیب ایکٹ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم ہوچکی ہیں۔ چیئر مین نیب اور الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کی جا چکی ہے۔ 

مریم نواز کیس سے بری ہوچکی ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بجٹ انہیں پیش کرنے کا موقع ملے تاہم وہ پہلے بھی ایک بڑا ریلیف پیکج دے کر الیکشن میں جاسکتی ہے۔ عمران خان بھی اسمبلی میں وا پس آکر اپو زیشن میں بیٹھ سکتے ہیں تاکہ نگران وزیر اعظم کا تقرر ان کی مشاورت سے ہوالبتہ قوی امکان یہ ہے کہ نومبر کی اہم تقرری کا فیصلہ اب شہباز شریف ہی کریں گے۔

ایک بات اور اہم ہے کہ جب تک صو بائی اسمبلیوں کی تحلیل پرا تفاق رائے نہ ہو اس وقت تک قومی اسمبلی کیسے تحلیل کی جاسکتی ہے۔ یہ مرحلہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہےکیونکہ اس میں کئی اسٹیک ہولڈرز ہیں جن کا مفاد اس سمبلی مدت پوری ہونے میں ہے۔ عمران خان شدید مایو سی کی کیفیت میں ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی کا میابی کا خود انہیں بھی یقین نہیں ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید