احُسن اقبال
آج کے ترقی یافتہ ،مگر پرآشوب اور پرفتن دور میں نوجوان دوسرے میدان میں آگے ہیں یا پیچھے ، اس پر بحث نہ کرتے ہوئے مذہب سے بیزار ہیں یا نہیں، وہ دیگر میدانوں کی طرح اس میدان میں بھی سستی و کاہلی اور غفلت و لاپرواہی میں مبتلا ہیں۔ اس وجہ سے وہ اپنے مذہب کی تعلیمات سے ناآشنا اپنی تہذیب و ثقافت سے نابلد اور اپنے تشخص و شناخت سے بے خبر ہیں اور انہیں اپنے مذہب سے لگاؤ ہے ،مگر کامل تابعداری ، مکمل فرماں برداری اور اپنے مذہب کی تعلیمات پر کامل طریقے سے عمل پیرا نہیں ہیں وہ اپنے مذہب، پیغمبر اسلام، شعائر اسلام پر مرمٹنے کیلئے تیار ہیں لیکن شرعی احکامات اور اسلامی تعلیمات پر جینےکےلئے آمادہ نظر نہیں آتے۔
آج کے اس پرخطر ماحول میں انسان کے لئے مذہب سے وابستگی بے حد ضروری ہے اور اس وابستگی کے نہ ہونے کی بناء بے شمار برائیاں جنم لےرہی ہیں۔ دینی و اسلامی باتوں کی طرف راغب نہ ہونا، دینی باتوں کی طرف توجہ نہ دینا، دینی و اسلامی شعائر کی قدر نہ کرنا، امت مسلمہ کے نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ سے کچھ کم نہیں۔
اگر عصر حاضر کے نوجوانوں، ان کی مصروفیات، خواہشات اور تمناؤں کا موازنہ عہد رسالت کے نوجوانوں، ان کی مشغولیات اور جذبات سے کیا جائے تو حد درجہ تکلیف دہ صورت حال سامنے آتی ہے۔ ایک وہ دور تھا کہ بچے بچے کی زبان پر قرآن کا ورد ہوتا تھا، وہ غیر معمولی حد تک دینی امور سے واقف ہوتے تھے،ایثار وقربانی ان کی گھٹی میں پڑی ہوتی تھا،مگر افسوس آج دین و دنیا دونوں میدان نوجوانوں کی پس روی و پس گردی کا شکوہ کررہے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی آفاقی اور انقلابی شاعری کے ذریعہ جہاں مشرق کے تفوق و امتیاز کو جگہ جگہ اجاگر کیا، وہیں نئی نسل کو اس کا بھولا ہوا سبق بھی یاد دلایا،ایک نظم بہ عنوان”خطاب بہ جوانانِ اسلام ‘‘کے ذریعہ نوجوانوں کو ملت کے تاب ناک ماضی سے درسِ عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور نہایت مفکرانہ لہجے میں فرماتے، بلکہ پوچھتے ہیں کہ اے نوجوان! تمہیں اپنے ماضی کی کچھ خبر بھی ہے؟ کیا تم نے اس بات پر کبھی غور و فکر کیا ہے کہ تمہارا ماضی کیا رہا ہے؟
تمہارے اسلاف کون تھے؟ تمہارا تعلق کس قوم سے ہے؟ اور کن لوگوں نے تمہیں اپنی آغوش میں پالا پوسا ہے؟ وہ قوم جو دنیا کی حکم رانی اور جاہ و حشمت کو اپنی جوتیوں تلے روندتی تھی،جس کے قدموں میں کئی سارے تاج پڑے رہتے تھے،جس قوم نے کبھی اپنی خودی کا سودا نہیں کیا؛لیکن آج تم معمولی اور حقیر مقاصد کے لیے اپنی خودی کو بیچ دیتے ہو،تن پروری تمہاری عادت بن چکی ہے۔در حقیقت آج ہم اپنی چال ہی بھول گئے ہیں ۔ہم کیا تھے اس کا خیال وفکر ہی نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس دور میں سانس لینے والی یہ انتہائی باخبر نسل ، مذہب کے سادہ سے اصول اور تعلیمات سمجھنے سے قاصر کیوں ہے؟کیوں اسلام کے واضح اور پُرحکمت احکامات، جنہوں نے عرب کے انتہائی انحطاط پذیر معاشرے سے تعلق رکھنے والے صحرا نشینوں کی کایا پلٹ دی تھی ،ان کو یہ بہترین آئی کیو لیول کی حامل نسل صحیح طور پر سمجھنے میں ناکام کیوں نظر آتی ہے ؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ نسلِ نو کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے حکمت، نصیحت اور احسن طریقے سے گفت و شنید کے ذریعے دین فطرت کی طرف مائل کیا جائے،تو یہ دوری مٹ سکتی ہے۔
نوجوانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اسلاف کرام کی زندگیوں کو اپنے لئے نمونہ بناکران کی اقتداء اور پیروی کریں۔اگرتاریخ اسلامی پرایک نظرڈالی جائے تو بخوبی علم ہو جائے گا کہ ہمارے سلف صالحین میں کتنے نوجوان ایسے گزرے ہیں جو دعوت واصلاح،حرکت ونشاط کے اعتبار سے نسلِ نو کے لیے بہترین نمونہ تھے۔ دعوت واصلاح کے سلسلہ میں ان کی بے پناہ صلاحیتوں کی روداداورعظیم الشان کارناموں کی فہرست آبِ زرسے لکھے جانے کے قابل ہے۔
یا د رکھیں کہ دنیاوی زندگی بہتر بنانے کے لئے اخروی زندگی کے لیے بھی تگ و دو کرنا اور اس کی بہتری کے لیے کوشاں رہنا ہی حقیقی کامیابی کا ہے۔اگر غفلتیں ، کوتاہیاں یونہی رہیں تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے ، اس حوالے سے والدین اور اساتذہ کرام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں اپنی اولادوں کی دنیاوی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی خاص اہتمام کریں۔