سندھ میں پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے، تھانہ کلچر کی تبدیلی، قبائلی تنازعات کے خاتمے سمیت پولیس کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے ہر حکومت اور آئی جی سندھ کی جانب سے اکثر اعلانات اور بیانات تو سامنے آتے ہیں اور پولیس چیف اپنے طور پر کوششیں بھی کرتے ہوں گے، لیکن آج تک عملی طور پر اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ نتائج دکھائی نہیں دیے۔ تھانوں کی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے اور سب سے اہم مسئلہ جو قیام امن میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے وہ قبائلی تنازعات ہیں، کیوں کہ اس کے باعث پولیس کی گرفتاری سے بچنے اور ممکنہ تصادم کے خطرے کی وجہ سے لوگ روپوش اور اشتہاری بننے کے ساتھ مسلح ہوجاتے ہیں۔
ان کی اکثریت کچے کے علاقوں کو محفوظ تصور کرتے ہوئے کچے کے علاقوں اور جنگلات میں پہنچ جاتی ہے، جہاں وہ پہلے سے موجود ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر رہنے لگتے ہیں ۔ سکھر پولیس کے کمانڈر ایس ایس پی سنگھار ملک جو نوجوان پرعزم اور پولیس فورس کو اپنے وسائل کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ چند ماہ میں تاجروں صنعت کاروں مذہبی، عوامی حلقوں اور شہریوں میں گھل مل گئے ہیں۔ وہ اکثر ایوان صنعت و تجارت کے صدر کی جانب سے کھلی کچھری میں تاجروں سے ملتے ہیں۔
پولیس نے مختصر عرصے میں ڈاکوؤں، جرائم پیشہ عناصر، منشیات فروشوں اور معاشرتی برائیوں سمیت روپوش و اشتہاریوں کے خلاف درجنوں کام یاب کریک ڈاون کئے ہیں، لیکن سب سے اہم ترین مسئلہ قبائلی تنازعات کے خاتمے میں پولیس نے مثالی کردار ادا کیا۔ سکھر کے ایس ایس پی نے جہاں ایک جانب ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاون کیے،تو وہیں دوسری جانب سکھر ضلع میں جاری قبائلی تنازعات کے خاتمے میں بہتر حکمت عملی کے ساتھ کام کرتے ہوئے مختلف قبائل کے درمیان جاری خونی تنازعات ختم کرا کر یہ ثابت کیا کہ اگر کچھ کرنے کی لگن جذبہ اور جستجو ہو تو ، پولیس یہ سب کچھ کرسکتی ہے، جو سکھر پولیس نے کر دکھایا ہے۔
ترجمان پولیس کے مطابق سکھر ضلع کے مختلف علاقوں میں خاص طور پر کچے کے علاقوں میں مختلف برادریوں کے درمیان گزشتہ کئی سال سے جاری قبائلی خونی تنازعات جھگڑوں کے باعث معمولات زندگی بُری طرح متاثر تھی۔ ایس ایس پی کی سربراہی میں اس حوالے سے کوششیں شروع کی گئیں کہ جن برادریوں میں تنازع ہے ، اسے ختم کرا کر علاقے میں امن اور بھائی چارے کی فضاء قائم کی جائے اور یہ کوششیں رنگ لے لائیں۔ متعدد برادریوں کے درمیان آپس میں صلح کرادی گئی ہے۔ ان میں قابل ذکر جتوئی جاگیرانی تصادم تھا، جس کے باعث کچے کے متعدد علاقے متاثر تھے اور لوگوں کی زندگی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
ان برادریوں کے درمیان جاری خونی تصادم میں کئی معصوم لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے، جب کہ مھر شیخ برادری کے درمیان بھی تصادم جاری تھا اور مہربرادری کے دو گروپوں میں تنازع تھا، جب کہ جاگیرانی برادری کے بھی دو گروپوں کے درمیان تنازع تھا۔ یہ ایسے تنازعات تھے، جس سے انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ معاشی سرگرمیاں متاثر تعلیمی نظام متاثر لوگ بیماری کی صورت میں جھگڑے کے باعث اسپتالوں تک نہیں جاتے تھے۔ تاہم سکھر پولیس نے وہ کر دکھایا، جو مشکل ضرور تھا، لیکن ناممکن نہیں تھا۔ سکھر کے آپریشن کمانڈر ایس ایس پی کی قبائلی تنازعات کے خاتمے اور اس حوالے سے امن بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کا اقدام قابل تحسین اور تمام حلقوں نے سراہا گیا ہے۔
کچے کے جنگلات خاص طور پر کشمور اور شکارپور ضلع اس وقت بھی اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری بنے ہوئے ہیں، ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ رینج میں 30 سے 35 ہزار روپوش اور اشتہاری ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں اور مجموعی طور پر سندھ میں اشتہاری ملزموں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔ چند ماہ قبل جب ضلع شکارپور کے ایس ایس پی نے فہرست مرتب کی تو 8 ہزار سے زائد اشتہاری اور روپوش صرف ضلع شکارپور میں تھے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں ان کی تعداد کتنی ہوسکتی ہے۔ قبائلی جھگڑوں میں جو لوگ ملوث ہیں یا اگر کسی کو ایف آئی آر میں نامزد کرادیا جاتا ہے، تو پھر وہ پولیس سے بچنے اور قبائلی تنازعات کے باعث اپنے علاقوں سے نکل کر کچے کے جنگلات کا رخ کرتے ہیں۔
تنازعات کی روک تھام خاتمے کے لیے حکومت اور پولیس مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا!! قبائلی تنازعات کی روک تھام اور ضلع سکھر میں ان تنازعات کو ختم کرا کر بھائی چارے کی فضاء قائم کرنے کے حوالے ایس ایس پی سکھرنے بتایا کہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایات پر ڈی آئی جی سکھر جاوید سونھارو جسکانی کی سربراہی میں ضلع بھر میں ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر منشیات فروشوں سماجی برائیوں اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی سرکوبی کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کی جارہی ہیں، کسی بھی ضلع میں یا جہاں بھی قبائل برادریوں میں تنازعات ہوتے ہیں، وہ تصادم میں بدل جاتے ہیں، جس سے انسانی جانوں سمیت بہت نقصان ہوتا ہے۔ کچے کے علاقوں میں بچے اسکول نہیں جاسکتے، بیمار ہوں تو اسپتال نہیں جاتے ۔ اس صورتِ حال سے نہ صرف دونوں قبائل بلکہ عام آدمی بھی متاثر ہوتا ہے۔ پولیس کا کام ہر صورت میں قیام امن کو بحال رکھنا ہوتا ہے ۔
میں نے سکھر کا چارج سنبھالنے کے بعد قبائلی تصادم اور تنازعات کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے۔ متاثرہ علاقوں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی اور حالات کنٹرول کرنے کے بعد ضلع میں قبائلی تنازعات کو ختم کرانے اور پائیدار امن کے لیے کوششوں کا آغاز کیا گیا۔ ایک حکمت عملی مرتب کی گئی، جس کے تحت ان قبائل اور گروپوں میں جن میں تنازع چل رہا تھا، اسے ختم کرا کر آپس میں صلح کرائی جائے۔ علاقے میں امن بھائی چارے کی فضاء قائم ہو، بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور لوگ اپنے معمول کا کام خوف و خطر کے بغیر جاری رکھیں۔ پولیس نے خلوص نیت سے کوششیں کیں اور ہمیں کام یابی ملی۔
آج سکھر ضلع قبائلی تنازعات کے حوالے سے پرامن ضلع ہے اور میری اس وقت بھی مکمل نظر رہتی ہے کہ اگر کہیں کوئی ایسی چھوٹی معمولی بات، جو جھگڑے کو جنم دے سکتی ہو۔ اسے وہیں ختم کردیا جاتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ پولیس کا کام امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے، جسے ہر صورت میں برقرار رکھا جائے گا۔ سکھر کے تجارتی عوامی اور شہری حلقوں نے سکھر میں قبائلی تنازعات کو ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ایس ایس پی سنگھار ملک کی پیشہ ورانہ خدمات کو سراہتے ہوئے حکومت اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ دیگر اضلاع میں بھی قبائلی تنازعات کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جائیں اور سکھر ضلع میں مختصر عرصے میں ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر اور معاشرتی برائیوں کے خلاف کام یاب کریک ڈاون کرکے مثالی امن قائم کرنے والے ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کو قائداعظم پولیس میڈل کے لیے نامزد کیا جائے۔ سکھر کی طرز پر دیگر اضلاع میں بھی پولیس اقدامات اٹھائے، تو کم وسائل میں بہت زیادہ کام اور کام یابی حاصل کرسکتی ہے۔