بلوچستان کی سیاست میں ان دنوں جس تیزی سے تبدیلیاں نظر آرہی ہیں اس نے نہ صرف عوام بلکہ سیاسی حلقوں کو بھی حیرت زدہ کردیا ہے ، ہمارئے ملک میں گزشتہ چند سالوں کے دوران سیاست میں جو تبدیلیاں آئیں اس کے بعد تو اب کسی موقع پر حیرانی نہیں ہوتی لیکن بلوچستان میں ایسا کچھ گزشتہ عرصے سے ہورہا ہے جس کی جانب توجہ فوری طور پر مرکوز ہوجاتی ہے ، بلوچستان میں قریب ایک ہفتہ سے صوبائی اسمبلی میں بڑی اپوزیشن جماعت جمعیت علما اسلام کے بلوچستان کی مخلوط صوبائی حکومت میں شمولیت کا ہر سو چرچا تھا اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے جمعیت کی صوبائی اور مرکزی قیادت سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ رہا۔
جس کے بعد کبھی خاموشی چھاتی رہی تو کبھی سیاسی حوالے سے ایسا تاثر ملتا کہ شائد جمعیت کی صوبائی حکومت میں شمولیت کسی بھی وقت ہوسکتی ہے لیکن گزشتہ دنوں جمعیت علما اسلام کی صوبائی مجلس عاملہ اور صوبائی پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا توقع کی جارہی تھی کہ جمعیت کے اس اجلاس میں حکومت میں شائد شمولیت کا کوئی باضابطہ اعلان ممکن ہو لیکن اجلاس کے اختتام پر جمعیت علما اسلام کے صوبائی امیر وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع نے ایک پریس کانفرنس میں جمعیت علما اسلام کو وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے حکومت میں شامل ہونے کی دعوت کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔
اپنی طویل پریس کانفرنس میں مولانا عبدالواسع نے موقف اختیار کیا کہ صوبائی مجلس عاملہ اور پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں محسوس کیا گیا کہ جمعیت حکومت میں شامل ہوکر سیلاب زدگان کی امداد ، ان کی بحالی ، ان تک ادویات اور اشیاء ضرورت پہنچانے کیساتھ ایک موثر پلان بنانے میں اپنا کردار ادا کرئے ہم حکومت میں شامل ہوکر بے سروسامان عوام کی خدمت کرنا چاہتے تھے اس بنیاد پر ہم نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت قبول کی تھی اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو آگاہ کیا تھا کہ ان کے اصرار کے بعد جمعیت علماء اسلام نے خدمت کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے وزیراعلیٰ سے ہونے والی پہلے ملاقات اور مذاکرات میں ہم نے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا جس پر بظاہر مشاورت کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے وقت مانگا وزیراعلیٰ بلوچستان نے ہمارے چارٹرآف ڈیمانڈ کے برعکس اور جمعیت علماء اسلام کی پارلیمانی حیثیت کو سامنے رکھنے کی بجائے ایک ، ایک فرد یا جماعت کی حیثیت کو ہم سے بالا رکھتے ہوئے وزارتوں کی پیشکش کی ۔
وزیراعلیٰ کی صوبائی حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش جمعیت کے شایان شان نہیں تھی لہذا ان کی پیشکش شکریہ کیساتھ واپس کرتے اور واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی خدمت کیلئے جو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا اس سے ایک اینچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ، عوام کے حقوق ، ووٹ کے تقدس اور وقار کی جنگ لڑی ہے دس سال اپوزیشن میں گزارے ہیں ،جمعیت نے ہمیشہ عوام کے حقوق ، عوام کے ووٹ کے تقدس اور وقار کی جنگ لڑی ہے ہم نے پہلے بھی دس سال اپوزیشن میں گزارے اب بھی ہم بلوچستان میں ایک مضبوط اور موثر کردار ادا کرتے ہوئے بلوچستان میں بیڈ گورننس کی روک تھام کیلئے جدوجہد کریں صوبے کے اندر اسامیاں فروخت کرنے والوں کی نشاندہی کریں گے۔
دوسری جانب سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور جمعیت علماء اسلام کے درمیان حکومت میں شمولیت کا معاملہ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر شپ پر ڈیڈ لاک کا شکار ہوا ، سیاسی حلقوں میں یہ باتیں بھی گردش کررہی ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور جے یو آئی کے صوبائی امیر کے درمیان حکومت میں شمولیت کے حوالے سے ملاقات اور مذاکرات کے کوئٹہ اور اسلام آباد میں کئی راونڈ ہوئے جن میں جمعیت علماء اسلام کی قیادت نے حکومت میں شمولیت کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے سامنے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے ہر نقطے پر بحث ہوئی تاہم جمعیت کی جانب سے اسپیکر شپ کے مطالبے پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا۔
اس دوران وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے اسپیکر شپ کے معاملے پر اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے لئے وقت مانگا تھا یاد رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے چیف آرگنائزر جان محمد جمالی ہیں اور یہ عہدہ جمعیت کو دینا وزیراعلیٰ کے لئے ممکن نہ تھا جس کے بعد جمعیت علما اسلام کے صوبائی حکومت میں شامل ہونے کا باضابطہ اعلان کیا گیا جس کے ساتھ ہی اس جمعیت کے حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے کی چہ مگوئیاں بھی ختم ہوگئیں۔
بلوچستان میں ہمیشہ ہی سے مخلوط صوبائی حکومتیں بنتی رہی ہیں ، بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے اور پہلی صوبائی حکومت سے لیکر موجودہ دور تک جتنی صوبائی حکومتیں بنیں تمام مخلوط ہی رہیں اس کی بنیادی وجہ کسی ایک سیاسی جماعت کی ابتخابات میں اکثریت حاصل نہ کرنا ہے کیونکہ بلوچستان میں انتخابی حوالے سے ووٹ بینک ہمیشہ کم از کم تین بڑئے حصوں میں تقسیم رہا ہے ، جس میں ایک حصہ بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں ، دوسرا مذہبی اور تیسرا الیکٹیبلز کا رہا ہے ، الیکٹیبلز مختلف ادوار میں وفاق کی سطح کی مختلف جماعتوں کا حصہ رہے ہیں، ان کی شمولیت سے مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی صوبے میں حکومت بناتی رہی ہیں ، بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور الیکٹیبلز کی شمولیت سے یہ جماعت صوبے میں حکومت کررہی ہے ، بلوچ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کے لئے ماضی میں بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) کی طرز پر بلوچ قوم پرست قوتوں کو یکجا کرنے کی خواہش بھی رہی ہے ، 1997 کے انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے بعد سردار اختر مینگل کی قیادت میں مخلوط صوبائی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔
تاہم یہ جماعت زیادہ عرصے نہ چل سکی اور سیاسی اختلافات کے باعث نہ صرف سردار اختر مینگل وزرات اعلیٰ سے الگ ہوگئے بلکہ بلوچستان نیشنل پارٹی تقسیم ہوگئی ، اب ایک بار پھر بلوچ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کے لئے بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سربراہ و سابق صوبائی وزیر و سابق سینیٹر میر اسرار اللہ زہری سرگرم نظر آرہے ہیں ، ان کی گزشتہ عرصے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل اور نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن تاحال سے سلسلے میں کوئی بڑی پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ان جماعتوں کی جانب سے ممکنہ سیاسی اتحاد کا کوئی عندیہ دیا گیا ہے۔
دوسری جانب سنجیدہ سیاسی حلقے آئندہ عام انتخابات سے قبل ایسے کسی اتحاد کے حوالے سے پرامید نظر نہیں آرہے اس کی بڑی وجہ مذکورہ تینوں بلوچ قوم پرست جماعتوں کے حلقہ انتخاب کا ایک ہونا ہے اور اکثر حلقوں میں یہ جماعتیں ایک دوسرئے کے مدمقابل رہی ہیں ایسے میں اگر ممکنہ طور پر کوئی اتحاد بنات بھی ہے تو سب سے بڑا مسلہ انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہوگی جو شائد آسان بھی نہیں ہوگا تاہم اس حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔