• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کامران ٹسوری کی نامزدگی: چہ میگوئیاں کیوں ہورہی ہیں؟

بالآخر طویل انتظار کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنما کامران ٹیسوری نے سندھ کے 34 ویں گورنرکا حلف اٹھالیا کامران ٹیسوری کی بحیثیت نامزدگی پر چہ میگوئیاں ہورہی ہے وہ گورنر ہونے کے ساتھ ساتھ سندھ کی تمام جامعات کے چانسلر بھی ہوگئے خودایم کیو ایم میں اس ضمن میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے جبکہ ایم کیوایم کے کارکن ، ووٹرز، سپورٹرز نے بھی کامران ٹیسوری کے گورنر بننے پر تحفظات کااظہار کیا ہے اور پارٹی کے اس فیصلے سے شدید اختلاف کیا ہے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کامران ٹیسوری کے گورنربننے کے بعد پارٹی میں ردعمل آئے گا ردعمل کتنا شدید ہوگا یا نہیں ہوگا آئندہ چند روز میں داضح ہوجائے گا ایم کیو ایم موجودہ اتحادی حکومت میں شمولیت کے بعد دو وفاقی وزارتیں اور گورنر کا عہدہ حاصل کرچکی، معاہدے کے مطابق ایم کیو ایم کو سیاسی دفاتر کھولنے ، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی اور کراچی کا ایڈمنسٹریٹر ان کے مشورے سے لگانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، شہرکراچی کی ترقی کے لیے خصوصی فنڈز کے اجراکی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی ان نقاط پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے جس پر ایم کیو ایم کے کارکن پارٹی قیادت سے قدرے ناراض ہے۔ 

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ گورنرکے معاملے پر کارکن مزید ناراض ہوں گے ایم کیو ایم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے قیام سے لیکر اب تک سندھ میں گورنر سندھ کا عہدہ خالی تھا، ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے پہلے مرحلے میں جوپانچ نام دیے گئے تھے ان میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی،سندھ میں ایک اہم ترین آئینی عہدہ کافی عرصے سے خالی رہنے کے سبب مشاورت سے مزید دو نام وفاق کو ارسال کیے، ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے دوسرے مرحلے میں سابق ایم این اے عبدالوسیم اور کامران ٹیسوری کا نام تجویز کرکے وفاق کو بھیجا، صدر مملکت نے دوسرے مرحلے پر بھیجے جانے والے ناموں میں سے کامران ٹیسوری کو بحیثیت گورنرسندھ منظورکیا ایم کیوایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی دعاگوہے کہ کامران ٹیسوری بحیثیت گورنرسندھ وفاق اور صوبے کے درمیان ہم آئینگی قائم رکھنے کا کردار بخوبی اداکرینگے،امید کرتے ہیں کہ کامران ٹیسوری شہری سندھ کی محرومیوں کا ازالہ کرنے میں بھی اپنابھرپورکردار اداکرینگے۔ادھروزیراعظم میاں شہبازشریف نے تھرکول بلاک2 سندھ اینگروکول مائنزکا افتتاح کردیا وزیراعظم شہبازشریف کااستقبال وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کیا۔ 

بعدازاں وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم میاں شہبازشریف کوتھرکول مائنزپر بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ تھر کول پاکستان کی معیشت کا گیم چینجر ہےتھرکول سے بجلی کی پیداوار کا عملی اقدام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے 31جنوری 2014 کو تھر کول پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے وسیع تر روڈ نیٹ ورک ، برجز اور ایئرپورٹ کی ضرورت تھی حکومت سندھ نے سخت محنت کے بعد 750 ملین ڈالرز خرچ کرکے تھر کا انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین بلاول بھٹو نے پاور پلانٹ کا افتتاح کر کے آج ایک اور نئی تاریخ رقم کردی پاکستان کی جیالوجیکل سروے کے مطابق تھر میں 175 بلین ٹن کوئلہ موجود ہےتھرکول کے کل 13 بلاکس ہیں، بلاک II اور بلاک I پر کام کررہے ہیں۔ 

حکومت سندھ اور اینگرو نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 2009 میں بلاک II سے کوئلہ نکالا سندھ اینگرو کول پراجیکٹ میں سندھ حکومت کے 55 فیصد شیئرز جبکہ45 فیصد شیئر زاینگرو کے2014 میں سی پیک کے تحت کول مائن پاور پراجیکٹ پر کام شروع کیاگیا 2015 میں وفاقی حکومت نے اس پراجیکٹ کے لیے ساویرین گارنٹی جاری کی کوئلہ سے 660 میگا واٹ پاور پلانٹ پر کام شروع کیا گیا 2022 کے آخر تک اس پاور پراجیکٹ میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر2640 میگا واٹ ہوجائے گی تھر کے کوئلے سے 12500 GWh (گیگاگا واٹ )بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکی ہے تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداواری مد سے 2022 کے آخر تک قومی خزانے کو 2 بلین ڈالر کا فائدہ ہوگا سی پیک کے تحت تھر میں 7.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہےتھر کول سے بجلی کی پیداواری قیمت 17 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے جبکہ ایل این جی سے بجلی کی پیداواری قیمت 24 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے اور درآمدی کوئلے سے بجلی کی پیداواری قیمت 37 روپے کلو واٹ فی گھنٹہ بنتی ہے۔ 

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سال 2030 تک تھر کے کوئلے سے ملکی معیشت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا دسمبر 2022 تک تھر کول بلاک I سے 1320 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی، جس سے1.2بلین ڈالر کا زرِ مبادلہ محفوظ ہوگا وزیراعلیٰ سندھدرآمدی کوئلے پر چلنے والے بجلی کے کارخانے جب تھر کے کوئلے سے چلیں گے تو 1.5 بلین ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ ہوگا سیمنٹ کے کارخانے جب تھر کے کوئلے سے چلیں گے تو اس سے ملک کا 2 بلین ڈالر زرمبادلہ محفوظ رہے گاتھر کول سے کھاد کی پیداوار کے لیے جب سائن گیس (Syn gas) تیار ہوگی تو 3 بلین ڈالر کا زرمبادلہ محفوظ ہو گا تھر کا کوئلہ 70 میٹرک ٹن اگر فی سال برآمد کیا جائے تو زرمبادلہ کی مد میں 4 بلین ڈالر کا فائدہ ہوگا؛وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تھر کول بلاک II اپنے منافع کا 2 فیصد تھر کی سماجی ترقی پر خرچ کرتاہے تھر کے کوئلہ پراجیکٹس پر 7 فیصد یعنی3,303تھری ملازمت کرتے ہیں تھری ملازمین کو ہنری تعلیم کے حوالے سے 75 ملین روپے کی اسکالرشپ دی جاتی ہے تھر کوئلہ پراجیکٹس کے منافع سے 23 اسکولز قائم کیے گئے ہیں، جن میں4061 طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں تھر کول پراجیکٹ کی بدولت 120 بیڈز پر مشتمل اسپتال قائم کی گئی ہے اور اس کی روزانہ200 کے قریب او پی ڈی ہے تھر میں 52 خواتین ٹرک ڈرائیوز ہیں جو ڈمپر چلاتی ہیں؛ تھر میں11خواتین آر او پلانٹس چلاتی ہیں۔ 

بعدازاں وزیراعظم نے خواتین ڈمپر ڈرائیور سے ملاقات کی اور ان کی محنت ولگن کی تعریف کی ادھر سندھ میں بلدیاتی انتخاب اور قومی اسمبلی دوحلقوں کے ضمنی انتخاب کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظرآرہا ہے وفاقی وزیرداخلہ نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے کہ سیلابی صورتحال کے سبب رینجرز اور فوج ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے ہم الیکشن کے لیے سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے جبکہ صوبائی حکومت پہلے ہی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر کہہ چکی ہے کہ مطلوبہ تعداد میں پولیس فورس فراہم نہیں کرسکیں گے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، الیکشن کمیشن کا حکم سرآنکھوں پر مگر سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن میں مدد نہیں دے سکتی، نہیں چاہتے کہ ایک بھی بیوروکریٹ یا پولیس افسر کو متاثرین سے ہٹایاجائے، کچھ لوگ سیلاب میں بھی سیاست چمکانے میں لگے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہواور یہ لوگ سیاست چمکائیں ، یہ لوگ قوم کی توجہ قدرتی آفات سے ہٹاکرچاہتے ہیں کہ سیلاب کےد وران ہی ان کی حکومت آجائے۔الیکشن ممکن نہیں رہے گا۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف سندھ کے رہنماؤں نے کہاہے کہ ٹی وی پر رونے والے بچے کو سیلاب میں ڈوباہواسندھ نظرنہیںآرہا،بلدیاتی الیکشن کے لیے پولیس دستیاب نہیں مگر لانگ مارچ کو روکنے کے لیے پولیس ہے۔

ادھر مون سون کی بارشوں کو چار ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے تاہم اس کے بعد آنےو الے بدترین سیلابوں کے بعد اب بھی ملک کے جنوبی حصے میں سیلابی پانی بیماریوں اور وباؤں کا مرکز بن گیا ہے ، اس تعفن زدہ پانی سے ملیریا، ہیضے اور ڈینگی کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں سیلاب سے تباہی کی دوسری لہر بھی آسکتی ہے جبکہ سیلاب اور اس سے متعلق حادثات سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 1700 تھی تاہم سیلابی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔واضح رہے کہ سندھ حالیہ سیلابوں میں سب سے زیادہ متاثرہواہ ہے، جبکہ 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اور 20 لاکھ گھر تباہ ہوئے، 1500 اسپتال اور کلینکس کو نقصان پہنچا اور اندازاً 28 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ادھر سندھ ایکشن کمیٹی کی کال پر کراچی، حیدرآباد سمیت صوبے بھر میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے احتجاج کیا گیا۔ 

احتجاجی مظاہرے اور دھرنے جامشورو، سیہون، جیکب آباد،ٹھل، سکرنڈ، نواب شاہ، دولت پور،قاضی احمد، رانی پور، گمبٹ، سکھرسمیت سندھ کے مختلف شہروں میں ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کے باہر ہوئے جس میں سیاسی ، سماجی وقوم پرست جماعتوں کے کارکنان کی کثیرتعداد نے شرکت کی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید