سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی لندن میں میڈیا سے گفتگو مسلسل موضوع بحث بنی ہوئی ہے اپنی گفتگو میں انہوں نے جن مختلف پہلوئوں پر پہلی مرتبہ اظہار خیال کیا اس کی مختلف توجیحات پیش کی جا رہی ہیں اور اسی تناظر میں تبصرے اور تجزئیے پیش کئے جا رہے ہیں ان میں ذاتی حوالوں سے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی شدید علالت کے دوران اس وقت کی حکومت اور حکومتی حکام کے غیر انسانی رویوں اور بے حسی کے واقعات کا ذکر، مریم نواز کی اسیری اور اس دوران ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور اپنی بے بسی کا ذکر کیا۔
خود ان پر جیل میں کیا گزری ان پر بھی بات کی یقیناً اس گفتگو سے صاحب دل لوگوں میں ان کیلئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور کئی دھندلی تصویریں بھی واضح ہوئی ہوں گی۔ میاں نواز شریف کو لندن میں موجود 3سال ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے ’’حال دل سنانے‘‘ کیلئے وقت کا انتخاب مریم نواز کے لندن پہنچنے پر کیا۔
تاہم یہ صرف آغاز ہے ابھی تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف نے بتدریج کئی انکشافات کرنے ہیں اور پاکستان میں لوگوں کو بعض چشم کشا حقائق سے آگاہ کرنا ہے اور یہ سب کچھ ان کی وطن واپسی کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ جسے پاکستان میں انتخابی ماحول کا حصہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر پاکستان میں ’’ماحول‘‘ انتخابات کیلئے سازگار ہوا تو میاں نوازشریف اور مریم نواز دونوں ایک ساتھ ہی وطن واپس آئیں گے اور انہیں یقین ہے کہ پاکستان پہنچنے پر ان کے استقبال کیلئے آنے والی عوام کی تعداد اور جوش و خروش کے حوالے سے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے۔
اس حوالے سے آنے والے دنوں میں مسلم لیگی رہنمائوں کو بالخصوص پنجاب کے تمام شہروں سے قائد کے استقبال کیلئے تیاریاں شروع کرنے کی اور دیگر اقدامات کے انتظامات کے بارے میں ہدایات جاری کر دی جائیں گی تاہم بعض حلقے اب بھی میاں نوازشریف کی جلد وطن واپسی کو ممکن قرار نہیں دے رہے ہیں یہ وہی حلقے جو اسحاق ڈار کے بارے میں بھی یہی باتیں کر رہے تھے لیکن یہ ممکن ہوا کہ وہ وزیراعظم کے جہاز میں گئے تھے اور اسی جہاز میں آئے آتے ہی سینیٹر کا حلف اٹھایا اور پھر وزیرخزانہ کا حلف اٹھایا وہ 2018میں سینیٹر بنے تھے اور انہوں نے چار سال بعد حلف اٹھایا تو پھر یہ ممکن کیوں نہیں کہ تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے نوازشریف کی بھی جلد واپسی ہو جائے گی۔
وفاقی دارالحکومت جو اہم حکومتی خبروں کا مرکز تو ہمیشہ ہی رہتا ہے لیکن چند دنوں سے اسلام آباد عوامی مشکلات اور قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خفت آمیز خبروں کی وجہ سے بھی زیر بحث آیا ہوا ہے اور اس کی وجہ حال ہی میں آنے والی وہ ’’آڈیو لیکس‘‘ ہیں جس میں ہونے والی گفتگو میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت کئی سیاستدانوں اور اہم حکومتی شخصیات کی وہ گفتگو ہے جو انہوں نے مبینہ طور پر وزیراعظم ہائوس میں کی تھی یہ گفتگو منظرعام پر آنے سے کون ایکسپوز ہوا، کس کا جھوٹ پکڑا گیا، کس کی مقبولیت کو دھچکہ لگا، کس کی کامیابی ہوئی اور کون ناکام ہوا یہ ایک سیاسی معاملہ ہے لیکن درحقیقت اس صورتحال سے اصل نقصان پاکستان اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچا ہے۔
وزیراعظم ہائوس جہاں حکومتی اور سیاسی امور کے حوالے سے ہی گفتگو نہیں بلکہ اہم قومی سطح کے فیصلے، قومی سلامتی کے اجلاس، خارجہ امور کی حکومت عملی وضع کی جاتی ہے کیا ان کی آڈیو ریکارڈنگ بھی ’’مارکیٹ‘‘ میں دستیاب ہوگی؟؟ یہ ایک اہم اور حساس نوعیت کا سوال ہے لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ریکارڈنگز کی کس نے ہیں اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن تاریخ یہی ہے کہ سانحے ہو جاتے ہیں، کمیٹیاں بھی بن جاتی ہیں اور جو نقصان ہونا ہوتا ہے وہ بھی ہو جاتا ہے جبکہ بعض المیوں کے دور رس نتائج زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بہرحال یہ سلسلہ لیاقت علی خان کی شہادت سے جاری ہے۔
آڈیو لیکس کے بارے میں بھی شاید ایسا ہی ہو تحقیقات شروع بھی ہوگئیں تو عرصہ طویل ہوگا اور اس وقت معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور لوگ بھی بھول چکے ہوں گے تاہم اس حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس سمیت تمام اہم حکومتی اداروں کے دفاتر ایسی جگہ پر ہیں جہاں سے ڈپلومیٹک انکلیو ایک کلومیٹر سے بھی کم مسافت پر ہے جہاں تمام ممالک کے سفارتخانے موجود ہیں جن میں عالمی طاقتوں میں شمار کئے جانے والے ممالک کے بھی اور ایک یا دو سفارتخانے تو ایسے بھی ہیں جن کی بلند و بالا چھتوں پر نصب عجیب و غریب قسم کے انٹینے دور سے ہی نظر آتے ہیں۔۔ جہاں تک عوامی مشکلات کا تعلق ہے تو اسلام آباد چند دنوں سے ایک مرتبہ پھر ’’کنٹینرز کا دارالحکومت‘‘ بنا ہوا ہے اور وہاں کی مقامی آبادی اس صورتحال سے شدید دشواریوں اور مشکلات کا شکار ہے۔
غیرملکی ذرائع ابلاغ میں ان مناظر کی تصاویر بھی شائع ہو رہی ہیں حکومتی شخصیات اور اعلیٰ افسران تو سرکاری گاڑیوں میں ڈرائیور کے ساتھ آمدورفت ہوتی ہے لیکن ملازمت اور حصول روزگار کیلئے روزانہ جانے والے لوگ اور بالخصوص سکول کالج کے طلبا کیلئے یہ صورتحال انتہائی دشوار ہے جس کی ذمہ داری بھی وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر عائد کرتے ہیں کیونکہ ان کیلئے یہ مشکل صورتحال عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی کال اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں داخل ہونے کے باعث پیدا ہوئی ہے لیکن یہ بھی ایک تکلیف دہ صورتحال اور منفقانہ طرزعمل ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین نے ایک طرف تو اسلام آباد کی عوام کو اذیت ناک صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے اور پورے ملک میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے اور دوسری طرف ان کے معاملات طے کرنے کے حوالے سے پس پردہ سرگرمیوں کے انکشافات بھی ہو رہے ہیں۔ متوسط لوگوں کی جانب سے یہ احتجاج بھی ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے باعث انہوں نے ویسے ہی اپنی مصروفیات محدود کر دی ہیں لیکن کنٹینرز کی وجہ سے طویل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں اس لئے یہ صورتحال اخراجات میں اضافے کا بھی سبب ہے۔
پھر عمران خان کال دینے کی تاریخیں دینے کی بات کرتے ہیں لیکن پھر جلسوں کا شیڈول جاری کر دیتے ہیں جس سے ایک غیر یقینی صورتحال ہے گوکہ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے سائبر سکیورٹی اور سرکاری دفاتر کی الیکٹرانک سکیورٹی سے متعلق ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنا دی ہے اور اس کا ایک اجلاس بھی ہوچکا ہے لیکن ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ نتائج کا انتظار ہی رہے گا تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان ’’آڈیو لیکس‘‘ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی گفتگو میں بعض ایسے انکشافات بھی سامنے آئے ہیں جو بعض حلقوں کے نزدیک انتہائی غیر متوقع ہیں اور بعض کی توقعات اور خدشات کے عین مطابق۔ جن میں عدم اعتماد کی تحریک کے موقعہ پر اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کا سلسلہ بطور خاص قابل ذکر ہے جن کی اپنے جلسوں میں وہ ہمیشہ مذمت کرتے رہے ہیں اور ایسے ارکان کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں ان بے ضمیر ارکان کے بچوں سے کوئی شادی نہیں کرے گا یہ تقریبات میں بھی شامل نہیں ہوسکیں گے۔
اب دوسری طرف وہ خود ان بے ضمیر ارکان کی خریدوفروخت کے بارے میں باتیں کرتے سنے جاسکتے ہیں۔ پھر سائفر (سفارتی خط) کے بارے میں بھی یہ گفتگو بھی کہ میں نے اس سے ’’کھیلنا ہے‘‘ اور اس کی عبارت میں ردوبدل کرکے خودساختہ بیانئے کو جلسوں میں پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنا یہ ان کے ’’عوامی طرز عمل‘‘ کا پول کھولتا ہے اور ان کی یہ تضاد بیانی ان کی شخصیت کو بری طرح مجروح کرتی ہے۔ جلسوں میں شرکت کرنے والے ان کے ناخواندہ جذباتی حامی شاید ایسی خبروں سے متاثر نہ ہوں لیکن سیاسی طور پر بیدار اور معاملہ فہم اور باشعور لوگوں میں ان کی مقبولیت بہرحال متاثر ہوئی ہے۔