مختار احمد
پیارے بچو! پرانے زمانے کی بات ہے، یونان کے باد شا ہ کی پیاری سی بیٹی شہزادی نازیہ نے ایک روز اپنے والد سے کہا کہ،’’ وہ کہیں سیر کرنے جانا چاہتی ہے‘‘۔ بادشاہ امور مملکت میں مصروف تھا۔ اس نے شہزادی نازیہ سے کہا،’’ جیسے ہی فرصت ملے گی ،آپ کو پہاڑوں، دریا اور جنگل کی سیر کے لیے لے جائیں گے‘‘۔
شہزادی نازیہ ابھی صرف آٹھ برس ہی کی تھی، مگر بہت سمجھدار تھی۔ بادشاہ کی بات سن کر وہ بولی- ’’کوئی بات نہیں ابّا حضور جب آپ کو فرصت ملے ہمیں لے جائیے گا‘‘۔ اس نے اچھے بچوں کی طرح بالکل بھی ضد نہیں کی۔ کچھ دنوں بعد جب بادشاہ کو فرصت تو شہزادی نازیہ کو اپنے ساتھ گھمانے پھرانے لے جانے کا پروگرام بنایا، ساری تیاریاں جلد ہی مکمل ہوگئیں۔ اگلے روز انھیں سفر پر نکلنا تھا۔ شہزادی نازیہ بہت خوش تھی ۔ اگلے روز وہ لوگ دریا پر پہنچے۔ دریا کے نزدیک پہاڑ بھی تھے اور جنگل بھی۔ شہزادی ادھر سے ادھر بھاگتی دوڑتی پھر رہی تھی، اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔
بادشاہ کے ساتھ آئے ہوئے خادم دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ فضا میں کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد شاہی باورچی نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے۔ سب لوگ آجائیں۔ بادشاہ میں ایک بڑی اچھی بات تھی کہ جب وہ اپنے ساتھیوں اور خادموں کے ساتھ کہیں باہر نکلتا تھا تو دسترخوان پر ان سب کے ساتھ ہی کھانا کھاتا تھا۔
جب کھانا لگ جانے کا اعلان ہوا تو شہزادی بھاگ کر دریا کے کنارے ہاتھ دھونے گئی، جب ہاتھ دھو کر مڑی تو اس نے کچھ دور ایک بوڑھے شخص کو درخت سے ٹیک لگاے بیٹھے دیکھا، وہ بہت اداس نظر آرہا تھا۔ شہزادی نے سوچا کہ یہ کھانے کا وقت ہے، مگر اس بوڑھے کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، وہ دوڑ کر اس کے پاس گئی، سلام کیا پھر بولی ،’’ ہم سب کھانا کھانے رہے ہیں اگر آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھائیں تو ہمیں خوشی ہوگی‘‘۔
بوڑھے کو بہت بھوک لگ رہی تھی۔ شہزادی کی بات سن کر وہ خوش ہوگیا اور اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ بادشاہ کے نزدیک پہنچ کر شہزادی نے کہا -’’ابّا حضور! یہ بزرگ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے‘‘۔
بادشاہ نے خوشدلی سے کہا،’’ضرور‘‘ پھر اس نے اس بوڑھے شخص کو اپنے برابر میں بٹھایا۔ وہ شہزادی کی اس بات سے بہت خوش تھا کہ اس نے بغیر کسی کے کہے ایک بھوکے انسان کا خیال رکھا۔ سب کھانے سے فارغ ہوگئے تو وہ بوڑھا شخص اٹھا، اس نے شہزادی سے کہا ،’’جیتی رہو تم ایک بہت ہی نیک اور اچھے دل کی لڑکی ہو۔خدا تمہیں خوش رکھے‘‘۔
شہزادی نازیہ نے کہا۔ “محترم بزرگ، کسی کو کھانا کھلانا ثواب ہوتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے ہماری دعوت قبول کی‘‘۔
بوڑھے شخص نے اپنے لباس کی جیب سے ایک بڑی سی سنہری گیند نکالی اور شہزادی سے بولا ،’’یہ تمہاری نیک دلی کا انعام ہے۔‘‘
شہزادی نازیہ نے بادشاہ سے کہا ،’’ابّا حضور! اگر اجازت ہو تو ہم یہ گیند لے لیں‘‘۔
بادشاہ نے کہا،’’جی شہزادی آپ یہ گیند لے سکتی ہیں‘‘۔
شہزادی نے گیند لے لی، بوڑھے شخص نے بادشاہ سے کہا، آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کی اتنی اچھی اور نیک بیٹی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے ایک تالی بجائی، دوسرے ہی لمحے وہاں اس بوڑھے کی جگہ ایک حسین و جمیل پری کھڑی مسکرا رہی تھی، یہ دیکھ کرسب ہکا بکاہوگئے۔ پری نے کہا،’’میں پرستان سے گھومنے پھرنے نکلی تھی۔ یہاں آپ لوگوں کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ آپ کا امتحان لوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک بادشاہ ہونے کے باوجود غریب پرور ہیں۔ آپ کی شہزادی تو بہت ہی اچھی ہے‘‘۔
شہزادی وہ گیند پا کر بہت خوش تھی، اس نے اس کو احتیاط سے اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ لوگ مزید کچھ دیر وہاں ٹہرے، اس کے بعد بادشاہ نے واپس چلنے کا قصد کیا۔ محل پہنچ کر شہزادی نےوہ خوبصورت گیند ملکہ کو دکھائی تو وہ سمجھیں کہ بادشاہ نے اسے دلائی ہے، مگر جب شہزادی نے انھیں پری والا قصہ سنایا تو وہ حیران رہ گئیں۔ رات ہوئی تو شہزادی نازیہ نے اس گیند کو احتیاط سے اپنے کمرے میں ایک میز پر رکھ دیا۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اچانک کمرے میں جلترنگ سے بجنے لگے۔
آواز گیند میں سے آرہی تھی اور نہ صرف آواز آ رہی تھی بلکہ اس میں سے رنگ برنگی روشنی کی کرنیں بھی پھوٹ رہی تھیں۔ شہزادی گیند کے قریب گئی اور اسے دلچسپی سے دیکھنے لگی۔ اچانک گیند کا ایک چھوٹا سا حصہ کسی دروازے کی طرح کھلا اور اس میں سے ایک ایک کرکے ننھے ننھے سات بونے باہر نکلے۔ انہوں نے خوبصورت ریشمی لباس پہنے ہوئے تھے، انہوں نے شہزادی کو جھک کر سلام کیا ۔ایک بونے نے کہا،’’ہم سات بونے ہیں، ہر روز رات کو سات بجے اس جادو کی گیند سے نکلا کریں گے۔
ہم میں سے ہر ایک بونا روز ایک نئی کہانی سنایا کرے گا۔ ساتوں بونے چھلانگ مار کر شہزادی کے بستر پر بیٹھ گئے۔ ایک بونے نے کہانی سنانا شروع کی۔ جب کہانی ختم ہو گئی تو بونوں نے جمائیاں لیتے ہوئے شہزادی کو شب بخیر کہا اور دوبارہ اپنی گیند میں چلے گئے۔
ان کے گیند میں جاتے ہی اس کا دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔ شہزادی بہت خوش تھی اور دل ہی دل میں اس مہربان پری کا شکریہ ادا کر رہی تھی، جس نے اسے اتنی خوبصورت گیند دی تھی جس میں سات بونے رہتے تھے اور اچھی اچھی کہانیاں سناتے تھے۔ اس گیند کو دیکھتے دیکھتے شہزادی بھی نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔