ڈی آئی جی پولیس بے نظیر آباد ڈویژن عرفان علی بلوچ نے ایک ملاقات میں بتایا کہ جُرم کی ایف آئی آر کے اندراج اور جرائم پیشہ افراد کی سر گرمیوں کی اطلاع کے لیے پولیس نےجدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ کے ذریعے جدید سسٹم کو عوام میں متعارف کروا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب گھر بیٹھے ٹیوٹر فیس بُک اور واٹس ایپ کے ذریعے ایف آئی آر درج کرائی جاسکے گی۔ ڈویژن کے تینوں اضلاع، جن میں نوشہرو فیروز، سانگھڑ اور ضلع شہید بینظیر آباد شامل ہیں کو سیف سٹیز بنانے کے لیے ’’ویکٹمز‘‘ سپورٹ یونٹ قائم کیے گئے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے واٹسب گروپ کے ذریعے اب عوام کسی بھی جُرم کی ایف آئی آر درج کرانے کے پہلے مرحلے میں واٹس اپ ،ٹیوٹر یا فیس بک کے ذریعے پولیس کے مشتہر کیے گئے نمبروں پر اس کی اطلاع پولیس حکام کو دیں گے اور چھان بین کرنے کے بعد پولیس حکام متعلقہ شخص کو مطلع کریں گے اور اس کے بعد ایف آئی آر درج کرائی جا سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پولیس اور عوام کے درمیان دوستی کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے اور عوام میں پولیس کے خلاف خوف کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے کہا کہ تمام تھانوں کے متعلقہ افسران گروپس میں آنے والی معلومات کی مانیٹرنگ کریں گے اورعوام کے جائز مسائل کو حل کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ عوامی سطح پر یہ تاثر پولیس کے متعلق قائم ہے کہ پولیس آسانی سے پرچہ درج نہیں کرتی اور اس کے لیے تھانوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں اور اس سلسلے میں یہ شکایت عام ہے کہ اکثر تھانوں کا عملہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے جیب گرم بھی کرتا ہے اور اس کے بعد پھر کہیں جا کر ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور جب کہ یہ شکایت بھی کی جاتی رہی ہے کہ پولیس کا عملہ مدعی کی مرضی کی دفعات ایف آئی آر میں شامل کرنے کی بہ جائے اپنی مرضی کی دفعات شامل کرتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر پراسیکیوشن میں کیس ثابت نہیں ہوتا اور ملزم اس کا فائدہ لے کر رہا ہوجاتا ہے۔
ڈی ای ای جی عرفان بلوچ کا کہنا تھا ان کے پاس اکثر لوگ یہ شکایت لے کر آتے رہے ہیں کہ پولیس کے افسران تھانے میں موجود نہیں ہوتے اور پھر ایف آئی آر اگر درج نہیں ہوتی، تو اس کا فائدہ فریق مخالف اٹھاتا ہے اور اس کے بعد جھگڑا فساد بڑھ جاتا اور اس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں انہوں نے قانونی ماہرین اور محکمے کے اعلی حکام سے مشاورت جاری رکھی اور اس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ کے ذریعے، ٹیوٹر، فیس بک اور واٹس اپ گروپ بنا دیے گئے ہیں اور اس کی عوام تک رسائی کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں عوام کی جانب سے اس اقدام کی بھرپور پذیرائی کی گئی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اب اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی زیادہ سے زیادہ شکایات پولیس کے محکمے تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں لوگوں کو نہ صرف جرائم کی اطلاع دینے میں آسانی ہو گی، بلکہ اگر کہیں ایکسیڈنٹ ہوتا ہے تو اس کی اطلاع بھی سب سے پہلے محکمہ پولیس کو ملے گی اور پھر محکمہ پولیس سب سے پہلے وہاں پر پہنچ کر اپنی ڈیوٹی انجام دے گا اور زخمیوں کی جان بچانے کے لیے ان کی اسپتال منتقلی آسان ہوجائے گی ۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کی چوری ڈکیتی اغوا برائے تاوان قتل ہائے وے پر ہونے والی وارداتیں اور اس کے علاوہ منشیات کی فروخت بھی جو کہ معاشرے کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔
اس کی روک تھام بھی اس سسٹم کے ذریعے ممکن ہو سکے گی اور اس طرح یہ بھی اہتمام کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسے افراد جو کہ اپنا نام خفیہ رکھتے ہوے پولیس کو اطلاع دیتے ہیں تو ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا ، جب کہ جسم فروشی کے علاوہ کہیں ایسی سرگرمیاں جو کہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتی، ان کی اطلاع بھی پولیس حکام کو اس سسٹم کے ذریعے دی جا سکے گی۔ ڈی آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ اس سسٹم کے آجانے کے بعد پولیس کی ڈیوٹی بھی بڑھ گئی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کہیں مددگار 15,مشترک ہے تو کہیں پولیس کی موبائل لے دوڑ رہی ہیں اور کہیں اعلی پولیس حکام سرجوڑ کر کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ پولیس کی جانب سے یہ سفارشات کی گئی تھی، اس میں پولیس افسران کو بھی ان شکایات کے ازالے کے لیے فوری طور پر پابند کیا گیا ہے، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ غفلت برتنے والے پولیس افسران اور عملے کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ فیس بک, ٹیوٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے عوام الناس ایف آئی آر کے اندراج کے لیے قانونی مشاورت فراہم کرنے کے لیے الگ سے سینئر پولیس افسران پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جا رہی ہے، جہاں مدعی اپنے مسائل کو بیان کر سکیں گے۔