کراچی (اسٹاف رپورٹر )امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں تیسری مرتبہ بلدیاتی انتخابات کے التواء کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 220کے تحت اپنے آئینی اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتے تواس منصب سے مستعفیٰ ہو جائیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کراچی کے عوام کے آئینی و قانونی اور جمہوری حق، بلدیاتی انتخابات کو مسلسل التواء میں رکھنے پر از خود نوٹس لیں، جماعت اسلامی التواء کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرے گی،ہم کراچی کا مقدمہ عدالتوں میں بھی لڑیں گے اور سڑکوں پر بھی۔ ہم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ کسی اور کو راہ فرار اختیار کرنے دیں گے۔ پیپلز پارٹی کا رویہ کراچی دشمن، عوام دشمنی اور جمہوریت کش رویہ اور طرزِ عمل ہے اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ جمعرات 20اکتوبر کو شہر کے اہم مقامات پر دھرنے اور 21اکتوبر کو باغ جناح میں کراچی کی خواتین کا ایک عظیم الشان جلسہ ہوگا، صرف چند مظاہرے ہی نہیں جماعت اسلامی کراچی کے حق اور مسائل کے حل کے لیے بھر پور تحریک چلائی گی اور اس عوامی تحریک کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹہر سکے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو ادارہ نور حق میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ بد قسمتی سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں اور الیکشن کمیشن سب ایک پیج پر ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر بتائیں کہ کیا انہوں نے فوج اور رینجرز کو بلدیاتی انتخابات کے لیے تعینات کرنے کے لیے ہدایت کی؟ یہ تو ان سے پوچھ رہے ہیں ان کو پوچھنا نہیں بلکہ ہدایات جاری کرنی چاہیئے تھیں، اگر آپ اپنی آئینی حیثیت کے مطابق کام نہیں کر سکتے تو اس منصب پر کیوں موجود ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کی یہ پوزیشن اور حیثیت نہیں کہ یہ وفاقی اداروں سے پوچھیں کہ وہ ضروری مدد فراہم کریں گے یا نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 220کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ آرمی، ایف سی اور کسی بھی صوبے کی پولیس اور ادارے کو ملک بھر میں کہیں بھی الیکشن کے انعقاد کے لیے استعمال کر سکتاہے۔ اگر چیف الیکشن کمشنر اداروں سے پوچھتے رہیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کمزور ہیں اور اپنے آئینی اختیارات اور قانونی پوزیشن سے واقف نہیں لہٰذا ان کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔