قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے نتائج کے بعد اتحادی جماعتوں کا مستقبل نوشتہ دیوار ہے پی پی پی کراچی کے دو قومی اسمبلی پر ضمنی الیکشن کرانے کی حامی تھی انہیں یقین تھا کہ دیہی علاقوں، سندھی ،بلوچ آبادی اور وڈیروں کے زیراثرحلقہ این اے 237 ملیر سے وہ جیت جائیں گے اس حلقے میں جیتنے والے امیدوار حکیم بلوچ کابھی اپنا ووٹ بینک موجود ہے وہ اس حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر بھی جیت چکے ہیں جبکہ این اے 239 کورنگی ایم کیو ایم کاروایتی حلقہ ہے 2018 کے عام انتخاب میں پی ٹی آئی امیدوار اکرم چیمہ ایم کیو ایم کے سہیل منصورخواجہ کے مقابلے میں بمشکل تین سو ووٹوں سے فتحیاب ہوئے تھے جبکہ تین ہزار ووٹ مسترد بھی ہوئے تھے۔
منصورخواجہ نے عدالت سے رجوع کرکے مسترد ووٹ کی جانچ پڑتال کی درخواست کی تھی جو منظور نہیں ہوئی تاہم ضمنی الیکشن میں حلقہ این اے 237 پر پیپلزپارٹی اور 239 پر پی ٹی آئی نے میدان مار لیا، 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کے حکیم بلوچ نے این اے 237پر 32 ہزار 567ووٹ حاصل کر کے کامیابی سمیٹی جبکہ جبکہ پی ٹی آئی کے عمران خان نے 22ہزار 493ووٹ حاصل کئے ،تیسرے نمبر پرٹی ایل پی کے امیدوار س سمیع اللہ خان رہے جنہوں نے نے 2ہزار 956ووٹ حاصل کئے اور 836 ووٹ مسترد قرار پائے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو 10 ہزار 74 ووٹوں کے بڑے مارجن سے شکست ہوئی جبکہ این اے 239پر پی ٹی آئی کے عمران خان نے 50 ہزار 14ووٹ حاصل کرکے میدان مار لیا، دوسرے نمبر پر ایم کیوایم کے نیررضارہے جنہوں نے 18 ہزار 116ووٹ حاصل کئے جبکہ ٹی ایل پی کے امیدوار محمد یاسین نے 7 ہزار 953ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی عمران خان نے ایم کیو ایم کو 31 ہزار898 ووٹ کے بھاری مارجن سے چت کیا۔
ایم کیو ایم کی بڑی شکست کی بڑی وجہ لندن سے ہائیکاٹ کی اپیل تھی تو دوسری وجہ گورنرسندھ کے عہدہ پر دو ہفتے قبل ایم کیو ایم میں شامل ہونے والے کامران ٹیسوری تھے کارکنوں نے اس اقدام پرشدیدردعمل دیا،ایم کیو ایم گذشتہ تین چار ضمنی انتخاب کے نتائج کی بنیاد پر اپنا ووٹ بنک کھو چکی ہے متحدہ کئی برسوں سے حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود نا تو کراچی کے مسائل حل کر پائی ہے نا ہی کراچی کو اس کا جائز حق دلوا سکی ہے پھر متحدہ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہوئی ہے موجودہ حکومت میں شامل ہونے کے بعد متحدہ نے دو وزارتوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا نا تو اپنے سیاسی دفاتر کھلوا سکی جس کی وجہ سے ان کا کارکنوں سے رابطہ ٹوٹ گیا نہ ہی لاپتہ کارکنوں کے بارے میں پیش رفت کرا سکی جس سے کارکن مایوس ہو گئے سوائے ایک ضمنی الیکشن کے متحدہ کی قیادت کسی بھی ضمنی الیکشن میں فعال نظر نہیں آئی کارکن عدم تحفظ کا بھی شکار ہو گئے اور انہوں نے تنظیمی کام۔
تقریباً ترک کر دے دیگر عوامل بھی متحدہ کی شکست کی وجہ بن رہے ہیں کراچی کے ان دوحلقوں میں سے ایک حلقے پر عمران خان کی جیت اس لیے غیرمعمولی ہے کہ جن نشستوں پر انتخاب ہوا ہے وہ پی ڈی ایم نے بڑی عرق ریزی سے منتخب کی تھیں اور ان پر دئیے گئے استعفے منظور کرکے ان پر کامیابی کا پروگرام بنایا گیا تھا۔
یہ وہ نشستیں تھیں جن پر دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے انتہائی کم مارجن سے فتح حاصل کی تھی اور جس وقت یہ فتح حاصل کی گئی تھی اس وقت پی ڈی ایم کا بھی کو ہی وجود نہیں تھا اور اس کی جماعتیں بھی انفرادی حیثیت میں الیکشن لڑ رہی تھیں جب کہ اس بار کسی نشست پر پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں کے دو علیحدہ امیدوار موجود نہیں تھے بلکہ مختلف سیٹوں پر مختلف جماعتوں کے امیدوار تھے جنہیں باقی سب جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ دیگر یہ کہ این اے 237 کی فتح پر پی ٹی آئی نے پی پی پی پر دھاندلی کے الزامات بھی عائد کئے پی ٹی آئی کراچی کے صدر رکن سندھ اسمبلی بلال غفارپر مبینہ طور پر پی پی پی کے کارکنوں نے حملہ بھی کیا انہیں مارا پیٹا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔
پی ٹی آئی نے اس ضمن میں ایف آئی آر بھی درج کرائی ہے اور اس مار پیٹ کا الزام پی پی پی کے ایم پی اے سلیم بلوچ اور وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی سلمان مراد پر لگایا ہے ادھر پی پی پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی انتخاب کا التوا چاہتی تھی جبکہ جماعت اسلامی ہر صورت میں انتخاب چاہتی ہے عجیب بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے عام انتخاب کے بعد کراچی کے کسی بھی حلقے سے ضمنی الیکشن نہیں لڑا ان کی ساری دلچسپی بلدیاتی انتخاب پر مرتکز ہے کہا جارہا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی بند مٹھی نہیں کھولنا چاہتی قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں وہ اگر حصہ لیتی تو ان کا حال بھی دیگر جماعتوں جیسا ہوتا جس کا اثر بلدیاتی انتخابات پر پڑتا اس لیےجماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب حصہ نہیں لیا ادھر الیکشن کمیشن نےقومی اسمبلی کے دو حلقوں میں انتخابات کرانے کے بعد 23 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن ملتوی کردیے۔
حالانکہ قومی اسمبلی کے دونوں ضمنی الیکشن میں تشدد کے واقعات پیش نہیں آئے تھے،تاہم اس بات کا قوی امکان تھا کہ پیپلزپارٹی ، ایم کیوایم کی خواہش پر کراچی کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے جاسکتے ہیں اس ضمن میں پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کو تیسری بار خط لکھ کر الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی، پی ٹی آئی کے رہنماؤں اشرف قریشی، حلیم عادل شیخ، سبحان علی ساحل اور دیگر نے کہاہے کہ عمران خان کی کراچی سے بے مثال کامیابی کو دیکھتے ہوئے بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے گئے جبکہ مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما سردار رحیم نے کہا ہے کہ پی پی پی عوام میں غیر مقبول ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت میں شامل رہنے والی جماعتوں سے کراچی کی عوام سخت نالاں تھے ٹوٹی سڑکوں، تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر، سیوریج، لوڈشیڈنگ، کے الیکٹرک کے بلوں کے عذاب، پانی کی قلت، ٹرانسپورٹ کے مسائل ، اسٹریٹ کرائم جیسے مسائل کراچی میں بڑھتے جارہے تھے جس پر حکومت قابو پانے میں ناکام نظرآرہی تھی۔
ادھر الیکشن کمیشن کا کہنا ہے بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہرممکن کوشش کی، بلدیاتی انتخابات کے لیے گزشتہ روز سیکریٹری وزارت داخلہ سے میٹنگ کی گئی،وزارات داخلہ سے انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے فوج اور رینجرز کی فراہمی یقینی بنانے کا کہا تھا، کراچی میں الیکشن کے فیصلے سے متعلق 15 روز بعد اجلاس دوبارہ بلاکر بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیاجائے گا،پہلے بارش، پھر سیلاب اب سیکیورٹی کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن ملتوی کئے گئے ہیں، ہمارے نزدیک ووٹرز کا تحفظ اولین ترجیح ہےسیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کے باعث بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے گئے۔