• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اٹھارہ نقاطی ایجنڈا جاری کیا تھا، جس میں سرفہرست صوبہ سندھ کو منشیات سے پاک کرناشامل تھا اور اس سلسلے میں بلاشبہ انہوں نے جو کوشش کی، وہ کام یاب ہوئی اور بڑی حد تک صوبہ سندھ سے منشیات کا خاتمہ تو نہیں، لیکن اس میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ تاہم ان کی جانب سے ایک اقدام یہ کیا گیا تھا کہ منشیات کی فروخت کرنے والے عناصر کے اڈوں پر چھاپوں کے لیے اسپیشل ٹیمیں خود ان کی نگرانی میں بنائی گئیں اور ان ٹیموں کے بارے میں نہ تو ایس ایس پی ،ڈی آئی جی اور نہ ہی کسی اور سطع کے افسر کو شامل مشاورت کیا گیا، بلکہ یہ ٹیم براہ راست آئی جی سندھ کی زیر نگرانی کام کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں سندھ میں چھ ایس ایچ او کو معطل کیا گیا، تاکہ صوبے کی پولیس کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ اب جو بھی افسراس کام میں سہولت کاری کا مرتکب ہو گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، گو کہ ان میں سے اکثر بحال بھی ہو چکے ہیں، لیکن بہرحال اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز آئی جی پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے صوبے کے ایک سو ایک پولیس افسران کو جو کہ براہ راست جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث اور منشیات فروشی کے دھندے کے سہولت کار تھے، ان کو عہدوں سے ہٹا کر کراچی میں ایس ،آر ،پی سی میں رپورٹ کرائی گئی ہے اور ان کے خلاف تحقیقاتی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ 

تاہم پولیس کے سامنے صرف منشیات فروشی یا دیگر جرائم کے علاوہ اسٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ اور اس کے علاوہ ڈاکو کلچر کے خاتمے کے بھی بڑے ٹاسک موجود ہیں اور اس میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور سیلاب کی تباہ کاری کے بعد جس انداز سے بے روزگاری بڑھ گئی ہے، اس میں بھی صوبہ سندھ میں جرائم کی شرح کا گراف اچانک اوپر آگیا ہے اور اس سلسلے میں پولیس کی ذمے داریوں میں دوچند اضافہ ہوگیا ہے۔ تاہم پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، یہ وہ سلوگن ہے، جو کہ محکمہ پولیس کے ہر ڈیپارٹمنٹ کی پیشانی پر کندہ اور محکمہ پولیس کے ماتھے کا جھومر ہے اور محکمہ پولیس بھی اسی جذبے کے تحت کام کر رہا ہے، گو کہ محکمے میں اب بھی اکثیرت ان لوگوں پر مشتمل ہے، جو سچائی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اسی جذبہ جہاد کے تحت ڈیوٹی کے دوران وہ شہادت بھی حاصل کرتے ہیں اور ایسے کڑیل جوان جو کہ ابھی عمر کی کچھ ہی بہاریں دیکھ سکے تھے، اپنے پھول جیسے بچوں اور جوان بیویوں کو بیوہ کر کے راہئ عدم بلکہ جنت سدھار جاتے ہیں گو کہ محکمہ پولیس کی جانب سے ان شہداء کے ورثاء کی دیکھ بھال کی ذمے داری بھی لی جاتی ہے اور ان کی جان کے بدلے جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، لیکن پھر بھی کچھ مداوے کے طور پر امدادی رقم دی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود محکمہ پولیس کے جوان ہو یا افسراں یا نچلی سطح پر کام کرنے والے ملازم سب ہی اسی جذبے کے تحت کام کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کچھ کالی بھیڑیں ایسی داخل ہو گئی ہیں، جو کہ پورے محکمے کے لیے کلنک کا ٹیکا ثابت ہو رہی ہے۔

اس سلسلے میں محکمہ پولیس کی جانب سے آئے دن تطہیر کا عمل جاری رہتا ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف یہ کے پولیس اہل کاروں کو سزا کے طور پر کوارٹر گارڈ کیا جاتا ہے، ملازمت سے برخواستگی بھی کی جاتی ہے، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بقول ایک ریٹائرڈ ایس ایس پی کے کہ پولیس کے سامنے جب نوٹوں سے بھری تھیلی ٹیبل پر رکھی جاتی ہے اور ایک طرف ایک بے گناہ کے خون کا معاملہ ہوتا ہے، تواس وقت اس کے اصل امتحان کا وقت ہوتا ہے اور ایسے میں جوافسران غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ 

وہ ان نوٹوں کے بدلے اپنے ایمان کا سودا کرتے اور اس بے گناہ کے خون کو بیچ دیتے ہیں، اسی طرح کا ایک واقعہ حالیہ دنوں پیش آیا، جب ایک نوجوان نے اپنی نوبہیتا بیوی کو روٹی دیر سے پکانے پر قتل کر دیا، اس قتل کا مقدمہ لڑکی کے والد نے اپنے داماد پر داخل کیا، لیکن بدقسمتی سے یہی ’’چمک‘‘ کام آئی اور پھر ہوا یوں کہ پولیس نے الہ قتل جو کہ پستول تھا، اس کی برآمدگی تو دکھا دی اور الہ قتل لیبارٹری بھجوا دیا، لیکن اس قتل میں استعمال ہونے والی گولیوں کے خول لیبارٹری میں پستول کے ساتھ نہیں بھیجے اور اس کے بعد اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ پستول اور گولیوں کے خول میں مماثلت نہیں ہوئی اور اس کا فائدہ اس قاتل کو ملا اور وہ عدم ثبوت پر باعزت بری ہو گیا۔

ریٹائرڈ ایس ایس پی نے بتایا کہ اس کے علاوہ محکمہ پولیس میں قدم قدم پر نوٹوں کہ انبار لگے رہتے ہیں، جو کہ انصاف کی راہ میں ایسے پولیس افسران کے لئے جو کہ محکمے میں آئے ہیں نوٹ چھاپنے کے لیے ہوتے ہیں، کروڑوں اربوں روپے کی جائیداد بنا کر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس میں داخلے کے لیے جو سسٹم بنایا گیا ہے، اس میں اتنی خامیاں ہیں کہ اگر اس کی درستگی کی جائے، تو شاید یہ محکمہ کرپشن سے پاک ہو سکے ، ورنہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ جس طرح کی چمک اس محکمے میں پائی جاتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے افسران یا اہل کار ایمان دار بن سکیں۔ انہوں نے ایک مثال دی کہ ایسے لوگ جو کہ ڈاکٹر کے پیشے سے یا انجینئر ہوتے ہیں ، لیکن وہ سفارش کراکر ڈائریکٹ اے ایس پی اور بعدازاں ایس ایس پی کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں، کمیشن پاس کرنے والے امیدواروں کی حق تلفی کا موجب بنتے ہیں۔

تاہم ضروری نہیں ہے کہ ایسے افسران جو کہ اس طرح محکمہ پولیس کے اندر داخل ہو جاتے ہیں، سب ہی کرپٹ ہوتے ہیں، بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ بہت سے عسکری اداروں سے آنے والے ہوں یا ڈاکٹر انجینئر وہ بھی اپنی ڈیوٹی ایمان داری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثریت ایسے لوگوں کی اس محکمہ میں جمپ کرکے آتی ہے، جن کا مقصد ہی پیسہ کمانا ہوتا ہے اور اس کے بعد بقول ریٹائرڈ ایس ایس پی کے کہ محکمہ میں رشوت کا ایسا غدر مچتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب اوپر کی سطح پر کرپٹ افسران متعین ہوں، تو پھر نیچے والوں کو کس بات کی فکر اور یُوں پورا محکمہ ہی کرپشن کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کی گنگا میں سب ہی ہاتھ ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان دار وہ ہوتا ہے، جس کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا اور اگر اس کے سامنے بھی نوٹوں کی بوریاں پڑی ہوں اور اس تک رسائی اس کے بس میں ہو تو پھر دیکھا جاتا ہے کہ اس کے ایمان کا پیمانہ کس قدر اونچا ہے۔ ریٹائرڈ ایس ایس پی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ایک ایس ایس پی سطح کاافسر ایمان دار رہنا چاہیے، تو رہ سکتا ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ فرمائشیں اتنی ہوتی ہیں کہ اس کا ایمان دار رہنا ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ 

انہوں نے مثال دے کر کہا کہ پھر ایسے افسران کو جو کہ رشوت کو حرام سمجھتے ہیں، پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ان کے ضلع میں استعمال ہونے والی زیر استمال گاڑیوں کے پیٹرول کے بل اور عمارتوں کی مرمت کے جعلی بل اس کے علاوہ بڑے دنوں میں نفری کے لیے کھانا مہیا کیا جاتا ہے یا پیٹرولنگ کی جاتی ہے اس کے اکاؤنٹ برانچ کی ملی بھگت سے سے جعلی بل بنائے جاتے ہیں، ریٹائرڈ ایس ایس پی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ سندھ میں اس وقت مین پوری گٹکا زیڈ 21 اور نشہ آور ماوا کا کاروبار ہیروئن چرس اور افیون کی جگہ پر متبادل کے طور پر اسمگلر اختیار کر چکے ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید