• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محکمہ پولیس خواتین کی بھرتیوں کے رجحان میں اضافے کا امکان ہے، جس کے لیے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو خواتین کی پولیس میں بھرتی اور خواتین کے کوٹے کے حوالے سے پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، کیوں کہ ایک تو محمکہ پولیس میں خواتین آتی نہیں اور جو آنا چاہتی ہیں، وہ پولیس کانسٹیبل کی بھرتی کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی کے تحت امتحان میں ناکام ہوکر مایوس لوٹ جاتی ہیں۔ یہ معاملہ صوبائی حکومت اور پولیس چیف کی توجہ طلب ہے، کیوں کہ محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتی کی شرح بڑھا کر نہ صرف بہت سے مسائل و معاملات سے احسن انداز سے نمٹا جاسکتا ہے، بلکہ تھانہ کلچر کی تبدیلی میں بھی خواتین کی بھرتی کا کلیہ انتہائی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے ہر شعبے میں تو خواتین ترقی کے سفر پر گامزن ہیں اور اونچی اڑان اڑ رہی ہیں ، مگر محکمہ پولیس میں خواتین کی بھرتی کی شرح انتہائی کم ہے، جو کہ سوچ کو دعوت دیتی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا خواتین کی بھرتی کے لیے طریقہ کار ناقص ہے، کیا خواتین محکمہ پولیس میں بھرتی ہونا نہیں چاہتیں؟ یا پھر حکومت اس ضمن میں کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کررہی ہے؟ یہ سب سوالات اپنی جگہ، تاہم حقیقت پر نظر ڈالی جائے، تو سندھ کے مختلف شہروں میں محکمہ پولیس میں چند ماہ قبل لیڈی کانسٹیبل کی بھرتی کے لیے ہونے والے امتحانات میں جو صورت حال سامنے آئی ہے، وہ تشویش ناک ہے۔ 

سیکڑوں خالی اسامیوں پر خواتین نے اپلائی تو کیا، امتحانات بھی دیے، مگر وہ تحریری امتحانات میں کام یاب نہ ہوسکیں اور سیکڑوں میں سے صرف گنتی کی چند خواتین ہی بھرتی ہوئیں ، باقی اسامیاں خالی کی خالی ہی رہ گئیں۔ اس سلسلے میں ملنے والی معلومات کے مطابق سکھر میں 135 اسامیاں تھیں، جن پر 322 خواتین نے اپلائی کیا، 3خواتین پاس ہوئیں، جن میں سے ایک نے جوائن کیا، دو نے جوائن نہیں کیا۔ 

خیرپور میں 35اسامیاں تھیں، 105امیدوار تھیں، 12پاس ہوئیں، 7نے جوائن کیا، 5 نے جوائننگ نہیں دی۔ گھوٹکی میں 134اسامیاں تھیں، 100 خواتین نے اپلائی کیا، 3خواتین پاس ہوئیں، تینوں نے جوائننگ کی۔ ہمارے ملک کی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے، مگر آبادی کے تناسب سے خواتین محکمہ پولیس میں اپنی خدمات اس طرح سر انجام نہیں دے رہیں، جس کی ضرورت ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہ میں سے سب سے بڑی و بنیادی وجہ محکمہ پولیس میں بھرتی کا طریقہ کار بھی ناقص ہونا ہے۔

خواتین کی بھرتی کے لیے جو تحریری امتحان لیا جاتا ہے، اس میں بھرتی کی خواہش مند لڑکیاں اپلائی تو کرتی ہیں، مگر اکثریت تحریری ٹیسٹ میں کام یاب ہی نہیں ہوتیں ، تحریری امتحان میں مختلف مضامین ہوتے ہیں، 50 سوالات پر مشتمل 100نمبر کے پرچے میں ایک سوال پر 2نمبر ملتے ہیں، اگر کوئی سوال کا جواب غلط ہوا، تو آدھا نمبر کٹ جاتا ہے، ایسی صورت حال میں جہاں خواتین پولیس کی تعداد پہلے ہی کم ہے اور اگر پولیس کانسٹیبل کی بھرتی کا پیمانہ بھی اتنا سخت ہوگا، تو پھر کون بھرتی ہوسکے گا؟ 

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سندھ کے پسماندہ علاقوں میں بعض ایسے بھی اضلاع ہیں، جن میں ایک بھی لیڈی پولیس اہل کار موجود نہیں ہے، جب کہ لاڑکانہ، قمبر شہدادکوٹ، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی ودیگر اضلاع میں تو ویسے ہی خواتین شاذ و نادر ہی محکمہ پولیس میں بھرتی کے لیے تیار ہوتی ہیں اور ان علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا پولیس میں بھرتی ہونا اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، ایسے حقائق و زمینی صورت حال کے پیش نظر ان علاقوں میں محکمہ پولیس میں بھرتی کے لیے خواتین کو خصوصی رعایت ملنی چاہیے، خاص طور پر تحریری امتحان جیسی جھنجھٹ سے جان چھڑانی چاہیے، ایسا نہیں کہ اپلائی کرنے والی تمام خواتین کو ہی بھرتی کرلیا جائے، بلکہ تحریری امتحان کے بجائے دیگر طریقہ کار کے ذریعے بھرتی کی خواہش مند امیدواروں کی اہلیت و قابلیت کو جانچا جائے اور جو معیار پر پورا اترتی ہو، اسے بھرتی کیا جائے، تو زیادہ مناسب رہے گا۔ 

حال ہی میں لیے جانے والے تحریری ٹیسٹ کے نتائج اس بات کو واضح طور پر عیاں کررہے ہیں کہ محکمہ پولیس میں لیڈی کانسٹیبل کی بھرتی کے لیے پولیس افسران کو طریقہ کار تبدیل کرنا چاہیے، محکمہ پولیس میں خواتین کا صرف 5فی صد کوٹہ مختص ہے، جو کہ انتہائی کم ہے، آبادی کے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کی بھرتی کا کوٹہ کم از کم 25فی صد تک ہونا چاہیے، بھرتی کے لیے میٹرک پاس ہونے کی شرط رکھنا تو معقول ہے۔ تاہم تحریری امتحان جیسی چھری کی دھار ضرور ہلکی ہونی چاہیے یا پھر اس کے متبادل کوئی طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔ اگر روایتی طریقہ پر عمل کیا جاتا رہا، تو پھر صورت حال جوں کی توں رہے گی۔

کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، نواب شاہ میں وومن پولیس اسٹیشن قائم ہیں، لیکن سندھ کے اہم اور سب سے بڑے تجارتی حب جسے بلوچستان و پنجاب کی سرحد لگتی ہے، سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن قائم نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سکھر میں وومن اور چلڈرن جیل موجود ہے ،لیکن اس ضلع میں وومن پولیس اسٹیشن نہیں، ضلع سکھر میں وومن پولیس اسٹیشن کے قیام کی اشد ترین ضرورت ہے، جہاں ایس ایچ او سے لےکر کانسٹیبل تک تمام اسٹاف خواتین پر مشتمل ہونا چاہیے اور پولیس کی بھرتیوں میں خواتین کو خصوصی طور پر رعایت دی جائے، ایسی پالیسی مرتب کی جائے، جس کے تحت زیادہ سے زیادہ خواتین سندھ پولیس کا حصہ بنیں، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو اس حوالے سے غور کرنا ہوگا، پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جائے، ایسی پالیسی مرتب کی جائے، جس پر پولیس میں بھرتی کی خواہش مند خواتین کو زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکے۔

شہری و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لیے حکومت و پولیس کے اعلیٰ افسران کو خصوصی اقدامات کرنا ہوں گی، جب زندگی کے تمام شعبہ جات میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں ، توپھر وہ پولیس فورس کا حصہ بن کر بھی بہترین خدمات انجام دے سکتی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کی بھرتی کے طریقہ کار کو سہل بنایا جائے، جب کہ اس حوالے سے شعور بھی اجاگر کیا جائے، تاکہ پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کے اندر بھی محکمہ پولیس میں بھرتی کی خواہش بیدار ہوسکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید