• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک مشہور کہاوت ہے اور ایسے موقع پربولی جاتی ہے، جب کسی کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے یا کسی کو اس کے اچھے یا برے فعل کا بدلہ مل جائے۔اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ ایک بندر کسی دودھ والے کی دکان سے پیسوں کا گلہ اٹھا کر لےبھاگا، اس کے پیچھے دودھ والا بھاگا کہ اس سے اپنا گلہ لے لے، مگر وہ ایک ایسے درخت پر جا بیٹھا جو دریا کے کنار ے تھا۔ 

وہ گلے سے پیسے نکال کر کبھی خشکی پر پھینک دیتا اور کبھی دریا میں اِس کو دیکھ کر کسی تماشائی نے کہا کہ یہ ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر رہا ہے‘‘۔ یعنی دودھ والے نے دودھ میں جتنا پانی ملایا اس کے پیسے دریا میں پھینک دئیے اور دودھ کی قیمت خشکی پر۔ تاکہ دودھ والا اٹھا لے۔