مہوش مختار
فیضان پرائمری ا سکول سے ہی کرکٹ کا اچھا کھلاڑی ہونے کے سبب جانا جاتا تھا اور سب اُ س کی تعریف کرتے تھے کہ وہ اتنی چھوٹی عمر سے ہی بہت اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے۔ پڑھائی میں بھی اے گریڈ لیتا ۔آٹھویں جماعت میں فیضان کی کلاس میں ایک بچے نے داخلہ لیا جس کا نام ولید تھا۔ دونوں کی شروع شروع میں بالکل نہ بنتی تھی۔
فیضان اپنی اچھی پرفارمنس کی وجہ سےمغرور ہوگیا تھا۔ اسکول میں مڈٹرم شروع ہو گئے تھے لیکن فیضان کرکٹ کی وجہ سے پڑھائی پر توجہ نہ دے سکا، لہذا جب رزلٹ آیا تو فیضان نے کلاس میں دوسری اور ولید نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
ولید کو اساتذہ کی جانب سے سراہا جانا فیضان کو ایک آنکھ نہ بھایا۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی مجھ سے آگے نکلا ہو اور اساتذہ ولید کو کیسے سراہا سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں فیضان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھیں۔جب وہ کرکٹ اکیڈمی میں بیٹنگ کی پریکٹس کر رہا تھا، کوچ نے فیضان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی، مگر فیضان نے ”نو سر آئی ایم اوکے“ کہہ کر بات ختم کر دی۔
فیضان اب دسویں کلاس کا طالب علم تھا اور ولید نے بھی کوچ کے اسرار پر کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی۔ کوچ نے ولید کو کرکٹ اکیڈمی میں داخلہ لینے کو کہا اور بتایا کہ،’’ ہمارا ایک اور اچھا کھلاڑی ہے، اُس نے ہماری کرکٹ اکیڈمی کا نام روشن کیا ہے، وہ جنون کی حد تک کرکٹ کھیلنے کا شوقین اور دلدادہ ہے۔
فیضان چھٹی والے دن جب اکیڈمی پریکٹس کرنے آیا تو اس نے دیکھا کہ کوچ اُس کی پریکٹس کی ٹائمنگ میں ولید کو پریکٹس کروا رہے ہیں۔ وہ حیران ہوا اور کوچ کی جانب بڑھا۔
وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ اس نے کہا،’’کوچ! میری پریکٹس کا وقت شروع ہو چکا ہے، آپ میری ٹائمنگ میں کسی دوسرے کو کیسے پریکٹس کروا سکتے ہیں۔‘‘
’’فیضان! کوچ نے تھوڑی اونچی آواز میں کہا ،تم کیوں اس طرح کا رویہ، اختیار کر رہے ہو ،وہ بھی کسی کو ملے بغیر اور اُسے جانے بغیر ،مجھے لگا کہ ولید سے مل کر تمہیں زیادہ خوشی ہو گی اور پریکٹس کرنے میں دُگنا مزہ آئے گا۔‘‘
فیضان نے کوچ کی ایک نہ سنی اور وہاں سے چلا گیا۔ ولید نے کوچ سے معذرت کی اور کہا کہ، ’’سر آپ مجھے اجازت دیں، میں کسی دوسری اکیڈمی میں داخلہ لے لوں گا،مجھے نہیں لگتا کہ میرا یہاں رُکنا مناسب ہوگا۔‘‘
’’تم کہیں نہیں جاؤ گے،تم یہیں اسی اکیڈمی میں پریکٹس کرو گے اور ڈسٹرکٹ لیول میں حصہ لے کر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرو گے۔‘‘کوچ نے ولید سے کہا۔
ولید اور فیضان ایک ہی ٹیم میں بیک وقت پریکٹس کےلئے آتے، ولید کی کارکردگی فیضان سے دیکھی نہیں جا رہی تھی، پہلےا سکول اور اب اکیڈمی میں بھی، آخر کیوں یہ میرا پیچھا کر رہا ہے۔ بریک میں فیضان نے بلاوجہ ولید کو مارنا شروع کر دیا اور بات آہستہ آہستہ بڑے جھگڑے کی شکل اختیار کر گئی۔
کوچ نے واقعہ کی تحقیقات کرائی، سچائی سامنے آنے پر فیضان کو تین مہینے کے لئے اکیڈمی سے نکال دیا۔ ولید نے ڈسٹرکٹ لیول پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اکیڈمی کا نام فخر سے بلند کیا، فیضان پچھتاتا رہا۔
بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ،جو آپ کے پاس ہے، اُسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تو بہتر یہ ہی ہے کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوں ناکہ ان سے جلیں اور گمان کرنے لگیں کہ اُس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے جو کہ سراسر غلط امر ہے۔ حاسد کو پچھتاوے کا سامنا کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔