میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:سلیم اللہ صدیقی
آصف علی زرداری نے خارجہ پالیسی کی سمت یہ رکھی کہ پاکستان مغربی ممالک امریکا اور نیٹو کا بھی اتحادی رہے گا لیکن چین، ایران، ترکی، اور روس کے ساتھ بھی تعلقات نہ صرف سازگار بنائے جائیں گے بلکہ مزید وسعت دی جائےگی، بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ساڑھے تین کروڑ آبادی کا مقدمہ بھرپور اوربڑی خوبصورتی سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا، کشمیرکے پاکستان کے مقدمے پر جرمن وزیر خارجہ سے اعتراف کرانا پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیا بی تھی،بھارت نے اسے اپنی ہزیمت سمجھا ہے۔
پروفیسر طاہر نعیم ملک
سیاسی تجزیہ کار قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد
کشمیر کا اسٹیٹس وہ نہیں جو بھارت نے اپنے تئیں طے کر دیا ہے بلکہ وہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں طے ہو چکا ہے، بلاول کی یہ کامیابی بے نظیر بھٹو کی کامیابی کی یاد دلاتی ہے۔ خارجہ امور میں برف پگھل چکی ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمرات پر بھی شواہد یہ ہیں کہ دنیا پاکستانی موقف کی قائل ہو رہی ہے۔بلاول بھٹو کے سامنے اب بڑا چیلنج یہ ہے کہ ووہ خارجہ پالیسی کو ان ہی خطوط کی طرف واپس لے جائیں جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے استوار کیا تھا۔ ابتدائی نقوش ایسے ہی ہیں کہ عالمی طاقتوں کی اس لڑائی میں فریق بننے کا پاکستان کا کوئی ارادہ نہیں، یہی درست پالیسی ہے
آصف محمود
ماہر عالمی امور، سیاسی تجزیہ کار، کالمسٹ، انڈیپنڈنٹ
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جس طرح فوری پاکستان کادورہ کیا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اقوام عالم کوسیلاب سےمتعلق نقصانات اور تباہی کو المیہ سمجھانے میں کامیاب رہی ۔ بلاول بھٹو کا وزیرخارجہ بننا خوش آئند رہا، ثمرات نظرآنا شروع ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین ثبوت امریکا اور جرمنی کا حالیہ دورہ ہے، پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات میں بہتری کے اشارے نظر آرہے ہیں،ان کی اولین ترجیح اقوامِ عالم سے بہتر تعلقات ہے جس کی مدد سے معاشی معاملات کو بہتر بنانا ہے جس سے پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
محمد مشرف خان
ڈائریکٹرایشین ٹائمز میڈیا گروپ میامی فلوریڈا،رہنما ڈیموکریٹک پارٹی، فلوریڈا
عمران خان کی حکومت میں پاکستان عالمی تنہائی کا شکار دکھائی دیا، جس کے سبب پاکستان کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا، نئی حکومت کا سب بڑا چیلنج امور خارجہ کا محاذ ہی تھا، وزیر خارجہ کا منصب بلاول بھٹو نے سنبھالا تو بجا طور پر ان سے توقع تھی کہ وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو، والدہ بےنظیر بھٹو اور والد آصف علی زرداری کے وژن اور ان کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کی عالمی تنہائی دور کرنے میں کامیاب ہوں گے، بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان آج کہاں کھڑا ہے، بلاول بھٹو کے وزیر خارجہ بننے کے بعد پاکستان کا کیا امیج بن رہا ہے؟
بلاول بھٹو کے غیرملکی دوروں کی اہمیت کیا ہے؟ کیا وہ پاکستان کی عالمی تنہائی دور کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ کیا پاکستان آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھ سکے گا؟ بین الاقوامی تعلقات میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں؟ اور پاکستان کی معیشت کی بحالی میں ان کا کردار کیا ہو گا؟ بلاول بھٹو خارجہ تعلقات کی بحالی میں کتنے کامیاب ہیں؟ اور اس کے مثبت اثرات کیا ہو سکتے ہیں، کلائمیٹ چینج پر پاکستان اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنے میں کتنا کامیاب ہے؟ امریکا، روس اور چین پاکستان کے مفادات کے لئے کتنے اہم ہیں؟ تینوں ملکوں سے تعلقات میں توازن کے امکانات کیا ہیں؟
جس سے پاکستان کے مفادات متاثر نہ ہوں، مسئلہ کشمیر پر عالمی طاقتوں کی حمایت کی کیا اہمیت ہے اور ان کے موقف میں کوئی تبدیلی کتنی اہم ہے؟ فیٹف میں پاکستان کی پوزیشن کیا ہو گی؟ ان اہم سوالوں کے جوابات کے لئے " سیاست ۔۔۔۔ باؤنڈری سے باہر" کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، اس ٹیلی فونک جنگ فورم میں پروفیسر طاہر نعیم ملک (سیاسی تجزیہ کار، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد) محمد مشرف خان ڈائریکٹرایشین ٹائمز میڈیا گروپ میامی فلوریڈا،رہنما ڈیموکریٹک پارٹی، فلوریڈااور محمد آصف محمود( ماہر عالمی امور، سیاسی تجزیہ کار، کالمسٹ، انڈیپنڈنٹ) نے اپنی رائے کا اظہار کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
پروفیسر طاہر نعیم ملک
(سیاسی تجزیہ کار قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)
بلاول بھٹو زرداری کی صلاحیتیں بحیثیت وزیر خارجہ نکھر کر سامنے آئی ہیں۔ ان صلاحیتوں کی کئی وجوہات ہیں مگر ان میں دو تین زیادہ اہمیت کی حامل ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔بلاول بھٹو کو خارجہ پالیسی اورامور بین الاقوامی سیاست دونوں ورثے میں ملے ہیں۔ ان کے نانا سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے کم عمر وزیر خارجہ تھے،وہ ریکارڈ نواسے بلاول بھٹو نے توڑا اور 33 سال کی عمر میں وزیر خارجہ بنے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی تعلیم ، تربیت اور بھٹو خاندان کی وراثت عالمی سطح پربطورسیاسی خاندان پہچان ہے،مضبوط سیاسی پس منظر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ اگر دیکھا جائے تو انفرادی طور پر جو بھی وزیر خارجہ ہوتا ہے، اس کی تعلیم اور خاندانی اثر و رسوخ کا ملک کوبہت فائدہ ہوتا ہے۔
مثلاً ہیلری کلنٹن امریکا کی وزیر خارجہ بنیں ، تو انہیں ماضی میں خاتون اول رہنے کا بھی اعزاز حاصل تھا وہ سابق امریکی صدربل کلنٹن کی اہلیہ تھیں، اورکارکردگی کا جائزہ لیں تو ان کی کارکردگی ایک عام وزیر خارجہ سے بہتر تھیں۔ اسی طر ح بین الاقوامی سیاست کی تاریخ میں ہمیں اور بھی مثالیں ملتی ہیں، جیسے جان کیری وغیرہ۔ پاکستان میں جمہوریت کی جد و جہد ہو یا خارجہ پالیسی کا میدان، بھٹو خاندان بین الاقوامی سطح پرنمایاں مقام رکھتا ہے۔ مسلم دنیا کی پہلی اور دو مرتبہ کی منتخب خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے فرزند ہیں، جو دنیا بھر میں جمہوریت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ اس تعارف کی بنا پر دنیا بلاول بھٹو کو ہمدردی کی نظر سے بھی دیکھتی ہے۔
موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو وہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی ادارے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اس سے قبل دبئی کے شیخ زیدا سکول میں بڑی نمایاں کارکردگی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ہی پہلے والدہ کو بطور وزیر اعظم دیکھا، پھر والد کو بطور صدر مملکت دیکھا ،وہ گزارےدن پرورش کے ساتھ سیاسی تربیت بھی کرتے رہے، اپنے والدین کو دیکھا کہ وہ کس طر ح خارجہ تعلقات کو کنڈکٹ کرتے تھے وہ کیسے عالمی سربراہان سے ملاقات کرتے تھے، پاکستان کے قومی سلامتی کےمعاملات اور خارجہ پالیسی پر کس طرح پاکستان کا موقف پیش کیا جاتا تھا،یہ سیکھنے کا مو قع گھر سے ہی ملا۔یہ مثبت وجوہات انہیں خارجہ امور میں ممتاز بنارہی ہیں، وہ نوجوان ہونے کے باوجود قابل ستائش صلاحیت اور تجربہ رکھتے ہیں گو کہ حکومت کو بنے جو مخلوط بھی ہے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، آتے ہی سب سے بڑا چیلنج جو ملا وہ یہ کہ تاثر پیدا کیا گیا کہ حکومت غیر ملکی سازش کے تحت پچھلی حکومت کو ہٹا کر وجود میں لائی گئی۔
جس کی وجہ سے یہ بیانیہ قائم کیا گیا کہ روس کے ساتھ معمول کے تعلقات بھی اب قائم نہیں رہیں گے۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو سابق صدر آصف علی زرداری کی پالیسی تھی "لک ایسٹ" جس کے تحت پاکستان نے خارجہ پالیسی کی سمت یہ رکھی کہ وہ مغربی ممالک یعنی امریکا اور نیٹو کا بھی اتحادی رہے گا لیکن چین، ایران، ترکی، اور روس کے ساتھ تعلقات نہ صرف سازگار بنائے جائیں گے بلکہ ان کو مزید وسعت دی جائےگی، گزشتہ ادوار سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں لیکن گوادر پورٹ پر تعمیر و ترقی کے جس باب کا آغاز ہوا اس کا سفر کامیابی سے جاری و ساری ہے۔
چین سے تعلقات کو وسعت حاصل ہوئی ماضی کی تمام حکومتوں جس میں سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف کا دور ہو، یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہو ان منصوبوںپر تسلسل سے کام جاری رہا۔ اسی طرح مزید بین الاقوامی پراجیکٹس جو روس کے ساتھ شروع کئے گئے وہ بھی قائم رہے۔ بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ سے امریکی دورے کے دوران سوال کیا گیا کہ آپ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں، کیا وہ درست فیصلہ تھا کہ ایسے وقت میں جب روس یوکرین پر حملہ آور ہوا توکیا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو روس کا دورہ کرنا چاہئے تھا تو نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹونے معاملہ فہمی سے جواب دیتے ہوئے کہا کے وہ ریاست کی پالیسی تھی اور سیاسی اختلاف کے باوجود ہم سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کو اون کرتے ہیں ہم روس سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور ہم امریکا کے بھی اتحادی ہیں۔
اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں جو گرم جوشی روس اور پاکستان کے درمیان دیکھی گئی وہ وزیر اعظم کی سطح پر ہو یا وزیر خارجہ کی سطح پر ہو، اس سے روس پاکستان تعلقات کے حوالے سے پایا جانے والا یہ منفی تاثر زائل ہو گیا کہ ہمارے تعلقات روس سے خراب ہو رہے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان مزید وسعت اور گہرائی دکھائی دی۔ بلاول بھٹو نے بطور وزیر خارجہ پاکستان میں سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ آبادی جو متاثر ہوئی لوگ بے گھر ہوئے اور ایک انسانی المیہ نے جنم لیا، اس کا مقدمہ بھرپور اوربڑی خوبصورتی سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر امریکا کے اہم تھنک ٹینکس سے خطاب کیا اور عالمی نشریاتی اداروں کو بھی انٹرویوز دیئے۔
ہر انٹرویو میں ان سے روس یوکرین جنگ کے حوالے سے روس کے خلاف موقف لینے کا دباؤ نظرآیا لیکن بلاول بھٹو کمال مہارت سے نہ صرف بچ کےنکلتے رہے بلکہ مغرب کو ان کے دوہرے معیاربھی یاد کرائے ۔2019 میں بھارت نے جب آرٹیکل 370 (A) ختم کرکے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیا اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا تو اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس پرپاکستان کی کوئی مثبت اور مربوط حکمت عملی نہیں جبکہ اس کے برعکس بھارتی وزیر خارجہ بہت متحرک دکھائی دیتے تھے۔لیکن جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے حالیہ دنوں جرمنی کا دورہ کیا تو وہاں ہمیں پاکستان کی کامیاب سفارت کاری نظرآئی۔
بلاول بھٹو کا اپنی ہم منصب جرمن وزیر خارجہ کےہمراہ مشترکہ پریس کانفرس کے دوران کشمیر سے متعلق پاکستان کے مقدمے کو جرمن وزیر خارجہ سے اعتراف کرانا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے زور دینا پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیا بی تھی،بھارت نے اسے اپنی ہزیمت سمجھا ہےجس اس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے جرمن وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں خارجہ امور تنزلی کا شکار رہے ہیں لیکن آج بلاول بھٹو زرداری کے وزارت خارجہ کے امور سنبھالنے کے بعد ملک کا وقار بلند ہوتا نظر آرہا ہے۔ آج امریکا، چین، روس، مشرق وسطیٰ یا یورپی یونین ، عالمی سطح پر بلاول بھٹو زردادی کی لیڈرشپ کی تعریف ہو رہی ہے۔
کسی ایک عالمی طاقت کے آلہ کار بننے کے بجائے دنیا میں طاقت کے اہم مراکز کے ساتھ پاکستان نے بہترین تعلقات استوار رکھے ہیں ۔پاکستان کی جانب سےوہ دنیا کے نوجوان وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی سربراہی کے علاوہ تنظیم تعاون اسلامی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی صدارت بھی کرچکے ہیں، جی 77 گروپ کے اجلاس میں ترقی پذیر ممالک میں مسائل کے حل کے حوالے سے سات نکات پر مشتمل اپنی تجاویز دنیا کے سامنے رکھیںجس میں انہوںنےبڑھتے تنازعات، مہنگی اشیائے ضرورت، موسمیاتی تبدیلی اور وباؤں کے ذکر کیا وہاں انہوں نے بتایا کہ ان عوامل کی وجہ سے دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک ایک سخت دور سے گزررہے ہیں،لہذا ترقی پذیر ممالک کو اس ہمہ گیر بحران سے نمٹنے کے لئے عالمی اداروں بالخصوص عالمی مالیاتی اداروں سے تعاون درکار ہے۔
اقتصادی دباؤ کا شکار دنیا کے 50 سے زائد ترقی پذیر ممالک کی معاشی مدد کے لئے عالمی برادری کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوان وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بحثیت وزیر خارجہ خارجی محاذ پر کم مدت میں بڑی کامیابیاں سمیٹ لی ہیں جو یقینا ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظہر ھے ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورمیں پاکستان عالمی تنہائی کا شکار تھا جس کی وجہ سےہمارے معاشی حالات کا تقابل سری لنکا سے کیا جانے لگا تھا۔لیکن آج پاکستان نے عالمی برادری کو قائل کرلیا ہے کہ پاکستان کسی ملک کا نہ دشمن ہے نہ کسی کا آلہ کار، بلکہ جب دنیا کو دہشت گردی جیسے عفریت کا سامنا تھا تو پاکستان نے دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اب عالمی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کو مشکل حالات میں تنہا نہ چھوڑ دیں بلکہ ساتھ کھڑےہوں۔ دنیا کے مختلف کے معاملات خاص طور پر پاکستان کے مسائل پر طاقتور ممالک ہمیشہ تقسیم ہوتے تھے لیکن نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی صلاحیتوںکی وجہ سے پہلی بار تمام طاقتور ممالک پاکستان کے حق میں یک زبان نظرآرہے ہیں۔اگر مستقبل میں پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام ہوا توہمیں خارجہ محاذ پر بہت سی کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔
آصف محمود
( ماہر عالمی امور، سیاسی تجزیہ کار، کالمسٹ، انڈیپنڈنٹ)
بطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا آغاز شاندارہے۔ داخلی سیاست کے مسائل سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ امور خارجہ کے باب میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ واقفان حال اورسینئرسفارت کاروں کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مبادیات آج بھی وہی ہیں جو بھٹو صاحب کے دور میں طے کی گئیں۔ جزوی طور پر ان میں واقعات اور حالات کے جبر کے نتیجے میں تبدیلی آ جاتی ہے لیکن اس پالیسی کا بنیادی ڈھانچہ وہی ہے جوذوالفقار علی بھٹو نے بنایا۔ بلاول بھٹو نے جس طرح حالیہ ایام میں غیر ملکی نشریاتی اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کا مقدمہ پیش کیا یا پھر ان کے دورہ جرمنی کے موقع پر جس طرح جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ کے ضوابط کے مطابق حل کرنے کی بات ہوئی اور عالمی طاقتوں کے تنازعات میں فریق نہ بننے کے عزم کا اظہار کیا گیا، یہ انتہا ئی خوش آئند ہے۔
بلاول بھٹو کے حالیہ سفارتی تحریک کو سمجھنے کے لیے معاملے کے سیاق و سباق کو دیکھنا ہو گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت نے جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی حصہ قرار دیا اور پھر اس کے بعد ان تین سالوں میں جس طرح کی قانون سازی ہوئی وہ لمحہ فکریہ ہے۔ کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ، لینڈ ایکوی زیشن کے نئے قوانین، ڈومیسائل رولز میں تبدیلی، وقف پراپرٹیز پر ناجائز قبضے، پنڈتوں کی رجسٹریشن کے نئے قوانین، پنچایتی راج ایکٹ میں ترامیم، یونین ٹیرٹریز اور مقبوضہ کشمیر کے وسائل کے باب میں نئی قانون سازی، یہ سب تباہ کن اقدامات تھے اور ان کے مقصد کشمیر کی ڈیموگرافی کو بدلتے ہوئے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا، یہ معمولی چیز نہ تھی۔ لیکن ہماری جانب سے عجب سی خاموشی تھی۔
عمران حکومت نے تو یہ کہہ کر گویا ہاتھ ہی کھڑے کر دیے تھے کہ دنیا میں ہمارا کوئی ساتھ نہیں دے رہا۔سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ او آئی سی چونکہ ہمارا ساتھ نہیں دے رہی تو ہم ان مسلم ممالک کی کانفرنس بلا لیتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن ایسی کوئی کانفرنس بھی نہ ہو سکی جس سےایک خوفناک تاثر پیدا ہوا کہ کشمیر پر ہم تنہا ہو گئے۔بلاول کے حالیہ سفارتی تحرک نے اس تاثر کی نفی کر دی ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔پہلی بار دنیا سے ایسی آوازیںبلند ہوئی ہیں جن میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ناجائز اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ واضح کیاگیا ہے کہ کشمیر کا ا سٹیٹس وہ نہیں جو بھارت نے اپنے تئیں طے کر دیا ہے بلکہ
کشمیر کاا سٹیٹس وہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں طے ہو چکا ہے۔بلاول کی یہ کامیابی بے نظیر بھٹو کی کامیابی کی یاد دلاتی ہے۔بے نظیر بھٹو کے دور میں یہ ہوا کہ سلامتی کونسل نے کشمیر کو اپنے ایجنڈے سے ہی خارج کر دیا اور کہا کہ کسی کو اس فیصلے سے اختلاف ہو تو اپیل کرے اور اس اپیل کے نتیجے میں اس مسئلے کو عبوری طور پر ایجنڈے میں شامل کر دیا جائے اور اگر چھ ماہ میں سلامتی کونسل نے اس پر بحث نہ کی تو یہ خود بخود ایجنڈے سے خارج ہو جائے گا۔ چنانچہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نتیجہ ایک جیسا ہی ہو
گا،صرف چھ ماہ کا فرق پڑے گا۔ محترمہ نے سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لابنگ کی اور سلامتی کو نسل کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ سلامتی کونسل سے یہ اصول بھی طے کروا لیا کہ آئندہ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ مرضی کے بغیر مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ آج اگر ساری پریشانیوں اور ناموافق حالات کے باووجود کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے تو یہ بے نظیر بھٹو دور کی سفارتی کامیابی ہے۔بے شک ایسی کامیابی محض کسی فرد واحد کے مرہون منت نہیں ہوتی۔
اس میں ٹیم ورک ہوتا ہے اور بدلتے عالمی حالات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن قیادت اگر بالغ نظر ہو تو وہ ان حالات میں قوم کی بہتری کی امکانات تلاش کرتی ہے۔لیکن قیادت اگر نرگسیت کا شکار ہو تو وہ صرف ذاتی قد کاٹھ بڑھا نے کی کوششوں میں باقی معاملات کو نظر انداز کر دیتی ہے اور اس کا سارا فوکس اس بات پر ہوتا ہے کہ مجھ سے پہلے سب غلط تھا اور اب میں آگیا ہوں تو میں سب ٹھیک کر دوں گا۔ یہ نرگسیت امور خارجہ کوبازیچہ اطفال بنا دیتی ہے۔اس وقت روس یوکرین تنازعے نے ہمارے لیے سفارتی سطح پر وہ گنجائش پیدا کر دی ہے جو تیزی سے سکڑتی جا رہی تھی۔خوش آئند بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو اس میں قومی مفاد کے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔
امور خارجہ میں برف پگھل چکی ہے اور یہ بہر حال ایک بڑی کامیابی ہے۔اگر ترجیحات کا تعین کر کے درست سمت میں اسی طرح کام جاری رکھا گیا تو اس کے اثرات ہر معاملے میں نظر آئیں گے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضمرات پر بھی شواہد یہ ہیں کہ دنیا پاکستانی موقف کی قائل ہو رہی ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو امکان ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے آزار سے بھی پاکستان کو نجات مل جائے گی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی نوعیت قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے اور بین الاقوامی سیاست میں پاکستان جتنا اہم اور متعلق ہوتا جائے گا ایسے آزار بھی ختم ہوتے جائیں گے۔
بس ترجیحات اور سمت درست رکھنے کی ضرورت ہےاور میری خوش گمانی ہے کہ یہ دونوں اس وقت درست ہیں۔یہ بھٹو صاحب کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ تھا کہ کسی کے لیے کسی سے بگاڑی نہ جائے۔ چنانچہ ہم نے امریکا سے تعلق رکھا لیکن ہم نے اس کی خاطر چین سے اپنی دوستی کو قربان نہیں کیا۔ سعودی عرب ہماری دیرینہ دوست ہے لیکن ہم نے ایران سے بھی دشمنی مول نہیں لی۔ روس کے ساتھ بھی افغان جہاد کے بعد ہمارے معاملات میں سرد مہری ختم ہو چکی تھی۔ لیکن سابق وزیراعظم عمران خان دور حکومت میں یہ ہوا کہ عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن کی پرانی پالیسی نظر اندازہوتی دکھائی دینے لگی اور داخلی سیاست کے تقاضے پورا کرنے کے لیے روس کے دورہ کو ضرورت سے زیادہ معنی پہنائے گئے۔
رہی سہی کسر سائفر کے بیانیے نے پوری کر دی جب روس نے بھی ہماری داخلی سیاست پر سفارتی بیان جاری کرتے ہوئے سائفر سے جڑے معاملات کی مذمت کر دی۔بلاول بھٹو کے سامنے اب بڑا چیلنج ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کو ان خطوط کی طرف واپس لے جائیں جو ذوالفقار علی بھٹو نے استوارکی۔ ابتدائی نقوش تو ویسے ہی ہیں کہ پاکستان کا عالمی طاقتوں کی لڑائی میں فریق بننے کا کوئی ارادہ نہیں، یہی درست پالیسی ہے۔
محمد مشرف خان
( ڈائریکٹر،ایشین ٹائمز میڈیا گروپ میامی فلوریڈا،رہنما ڈیموکریٹک پارٹی، فلوریڈا)
پاکستانی تاریخ کے کم عمر ترین34 سالہ بلاول بھٹو ذرداری واحد وزیرخارجہ ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی زندگی روزِ اول سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت رہی ہیں۔ وہ جب بیرون ملک دورے پر گئےوہاں اہم اور ذمہ دار سے ملاقات کی تو سامنے والی شخصیت ان سے واقف تھی۔ نانا ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے 8 ویں پھر 12 ویں وزیرخارجہ رہے ہیں،خارجہ امور میں ان کی گرفت سے سب آگاہ ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وزارت خارجہ سے منسلک رہیں۔ والد آصف علی زرداری صدر پاکستان اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف رہے۔
لہذا یہ کہنا مناسب ہے کہ خارجہ امور سے آگاہی ان کے خون میں رچی بسی ہے۔ موجودہ حالات میں بلاول بھٹو کا وزیرخارجہ بننا بہت خوش آئند رہا،جس کے ثمرات تھوڑی مدت میں نظرآنا شروع ہوگئے ہیں۔اس کا تازہ ترین ثبوت امریکا اور جرمنی کا حالیہ دورہ ہے۔ پاکستان میں حالیہ قدرتی آفت اور سیلاب پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جس طرح فوری پاکستان کادورہ کیا۔یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ اقوام عالم کوسیلاب سےمتعلق نقصانات اور تباہی کو المیہ سمجھانے میں کامیاب رہی ۔ پاک امریکا دوستی کی تاریخ بہت پرانی ہے جس میں اس دوران بڑے اتار چڑھائو آئے،ان اتارچڑھائو کا تعلق خطے میں امریکی ضرورتیں اور جغرافیائی تبدیلیاں تھیں۔
گزشتہ حکومت کوبائیڈن سرکار نے کئی بار امریکا میں پاکستان کے سفیر اور وزیر خارجہ کو غیر پسندیدہ ہونے کا پیغام بھیجا ۔ مگر عمران حکومت اپنی جماعت کے وائس چیئرمین کی ناراضی کے خوف سے امریکاکی ناپسندیدگی کو خاطر میں نہیں لارہے تھے،پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بلاول بھٹو کا وزیر خارجہ بننا اچانک نہیں ۔ عرصہ دراز سے ان کی تربیت سابق پاکستانی سفیر برطانیہ واجد حسن،سابق وزیر خارجہ اور امریکا میں سفیر شیری رحمان، سابق وزیر خارجہ حناربانی کھر کے ساتھ اورپھر بین الاقوامی امور کے ماہرین کرتے رہے۔
اسی لیےجب ان کی ملاقات ٹرمپ دور کے وزیرخاجہ ریکس ٹیلرسن سے 17 فروری 2018 کو کروائی گئی تو اس کا بین الاقوامی سطح پر کافی چرچا ہواتھا۔ اس سے قبل 27 جنوری 2018 کو بلاول بھٹو نے اپنا انٹرویو انڈیا ٹوڈے کو دے کر اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کرچکے تھے ۔ اس انٹرویو میں انھوں نے کھل کر پاکستان ، پاک فوج اور قومی خارجہ پالیسی کا بھرپور دفاع کیاتھا۔ بلاول کے وزیر خارجہ بننے سے پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات میں بہتری کے امکا نات کے ساتھ اس میں مثبت اشارے نظر آرہے ہیں۔ وزارت خارجہ سنبھالنے کے بعد بلاول بھٹو کی اولین ترجیح اقوامِ عالم سے بہتر تعلقات جس کی مدد سے معاشی معاملات کو بہتر بنانا نظر آتا ہے۔
نمایاں شخصیت کے حامل وزیر خارجہ ہونے سے وہ پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کی نمایاں تشہیر کرنے کی بھرپور صلاحيت رکھتے ہیں۔ جس سے ذکو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ عالمی امور کا جائزہ لیا جائے، تو امریکا، چین اورروس پاکستان کی معاشی سیاسی اور سلامتی امور کے لیے بہت اہم ہیں۔ جن سے تعلقات میں بہتری لا کر معاشی حالات میں ترقی کے ساتھ مسئلہ کشمیر میں بھی ان کی حمایت اور مدد لی جاسکتی ہے۔ ان تمام صلاحیتوں کے باوجود نوجوان وزیر خارجہ بلاول کی کم عمری ان کے ناقدین کو بہت چبھتی ہے، اس ضمن میں بقول ابودانش۔ طفل جب کھیلتے ہیں کھلونوں سے ۔ہم اس دم ہی ریاست سے سیاست سیکھی۔