اسلام آباد (نمائندہ جنگ)نیب آرڈیننس میں ترامیم کے ایکٹ مجریہ 2022کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمار کس دیئے ہیں کہ عمران خان کے کنڈکٹ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر نہ آتے تو نیب ترامیم کی خامیوں کی نشاندہی ہوتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ترامیم میں کہاں لکھا ہے کہ ہر کوئی احتساب سے بالاتر ہے؟
مالیاتی پالیسی میں معاشی بہتری کیلیے پارلیمان قانون نرم کرے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟ پیر کو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ نیب ترامیم اہم نوعیت کا معاملہ ہے جس کا جائزہ لینا ضروری ہے.
جسٹس منصور علی شاہ نے ریما رکس دیے کہ کوئی سیاسی جماعت غلط قانون بنائے تو عوام اسے ووٹ نہیں دیگی اور دوسری جماعت اقتدار میں آکر وہ قانون تبدیل کرسکتی ہے، جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کے احتساب کا یہی طریقہ دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ مثبت چیز یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کیخلاف قانون 1947 سے ہے جبکہ دنیا نے کرپشن کیخلاف عالمی کنونشن 2003 میں جاری کیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموا رکے روزکیس کی سماعت کی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کنونشن کے مطابق انسداد کرپشن قانون کو مزید سخت کیا جا سکتا ہے،جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جنسی حراسگی سمیت ہمارے کئی قوانین میں خامیاں موجود ہیں،کیا عدالت بین الاقوامی کنونشنز کے مطابق قانون سازی کی ہدایت کر سکتی ہے؟
فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ اگر عدالت ہدایات دے بھی تو پارلیمان کس حد تک انکی پابند ہوگی؟جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت کئی مقدمات میں پارلیمان کو ہدایات جاری کر چکی ہے
عدالت نے کئی قوانین کی تشریح بین الاقوامی کنونشنز کے تناظر میں کی ہے، اس با رے میں عدالت پہلے بھی کئی مرتبہ یہ کہہ چکی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی کنونشن میں نجی افراد کی کرپشن کا بھی تذکرہ ہے، نجی شخصیات میں کنسلٹنٹ، سپلائر اور ٹھیکیدار بھی ہوسکتے ہیں، نجی افراد اور کمپنیاں حکومت کو غلط رپورٹیں بھی دے سکتی ہیں۔