پشاور(نمائندہ جنگ) پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصررشید نے کہا ہے کہ چترال میں بلاسٹنگ اور غیرقانونی کان کنی سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہر ایک چیز کا ایک طریقہ کار ہو تاکہ کسی طور پر ہمارے وسائل تباہ نہ ہو ں ، چیف سیکرٹری صاحب آپ خود اس معاملے کو دیکھیں کہ کس طرح مائننگ کا لائسنس دیا گیا اور ہزاروں سال پرانے درخت کاٹے گئے۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس گزشتہ روز چترال میں پرانے درختوں کی کٹائی اور معدنیات کی لیز سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران دیئے ۔دو رکنی بنچ چیف جسٹس جسٹس قیصررشید اور جسٹس عبدالشکور پر مشتمل تھا اس موقع پر چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا ڈاکٹر شہزاد بنگش ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل احمد بٹ، سیکرٹری فارسٹ عابد مجید، ڈی جی مائنز محمد نعیم اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ چیف سیکرٹری صاحب چترال کے لوگ وہاں کےپہاڑوں میں بلاسٹنگ سے بہت پریشان ہیں کیونکہ اس بلاسٹنگ کے بعد اکثر لینڈ سلائیڈنگ شروع ہو جاتی ہے اور جب بارش شروع ہو جاتی ہے تو ساری سڑکیں اس وجہ سے پانی میں بہہ جاتی ہیں اس کے ٹھیکے کس طرح دیئے گئے ہیں اس حوالے سے آپ دیکھیں جس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ وہ اس حوالے سے ضرور انکوائری کریں گے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ چترال کے عوام کو وہاں کے وسائل سے فائدہ ہو کیونکہ زیادہ تر مائننگ سے وہاں کے لوگوں کو فائدہ نہیں ہو رہا اور اس ضمن میں ضروری اقدامات کی ضرورت ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل احمد بٹ نے کہا کہ اس ضمن میں عدالتی حکم پر من وعن عمل کیا جائے گا اور جو عدالتی احکامات آئیں گے اسے صوبائی حکومت کے سامنے رکھا جائے گا چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کی جو تحفظات ہیں وہ درست ہیں وہ خود ہی اس مسئلے کو دیکھیں گے اور مائننگ کے لئے ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کہاں پر لیز دینا ہے کیا آیا یہ ریزور فارسٹ کا ایریا تو نہیں یا یہ آثار قدیمہ تو نہیں، اس کے بعد ہی باقاعدہ طور پر اس کی لیز دی جاتی ہے۔