• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، لانگ مارچ کیخلاف حکم امتناع کی حکومتی استدعا مسترد

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی لانگ مارچ روکنے کیلئے حکم امتناع کی استدعا ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے 25مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران خان اور ان کے وکلا ء بابر اعوان اور فیصل چوہدری سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کرلیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی سے بھی احتجاج کا حق نہیں چھینا جاسکتا ہے ، تاہم یہ احتجاج قانون کے دائرے کے اندر اندر ہونا چاہیے، پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کی درخواست اب دوبارہ موثر ہو گئی ہے کیونکہ وہ دوبارہ آ رہے ہیں،حکومت کوقانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے،عدالت صرف چاہتی تھی کہ کوئی ظالمانہ اقدام نہ کیا جائے،آئین وقانون کے مطابق احتجاج سب کا حق ہے جبکہ اس کے لئے حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کا کام ہے، سیاسی معاملات میں عدالتوں کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ایسے مسائل کے لیے پارلیمنٹ ہی اصل فورم ہے،احتجاج عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے، ہم اسے اچھا کہہ سکتے ہیں نہ برا؟ سپریم کورٹ اپنے قلم کو چھڑی کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی ہے ،عدالت نے ملزم عمران خان اور ان کے وکلاء بابر اعوان اور فیصل چودھری کو جواب کے لیے خفیہ رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کی روشنی میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کی چیف جسٹس ،عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہم نے پولیس اور دیگر حساس اداوں کی رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے، عدالت کے فیصلے کے اجراء کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ڈی چوک پہنچنے کی کال توہین عدالت ہے، فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے کہ انہیں عدالت کے احکامات آگاہ کردیا گیا تھا، فی الحال ہم کسی کو توہین عدالت کے جرم میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری نہیں کر رہے ہیں، عمران خان کا جواب آ جانے کے بعد جائزہ لیا جائیگا کہ عدالت کے احکامات کی توہین ہوئی یا نہیں؟ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی عمران خان کو طلب کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہیڈ لائنز نہیں بنوانا چاہتے، مقاصد قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔

اہم خبریں سے مزید