• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بالآخر گیلانی خاندان نے اپنی سیاست کو زندہ کرلیا

نثار اعوان/ملتان ملتان کے قومی حلقہ 157 میں گیلانی خاندان کی فتح کا جشن تا حال جاری ہے ، گیلانی ہاؤس کے سامنے مبارکباد دینے والوں کا مسلسل تانتا بندھا ہوا ہے ، اس الیکشن نے سید یوسف رضا گیلانی کی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا ہے ،پچھلے عام انتخابات میں پے در پے ناکامیوں کے بعد یہ کامیابی ملتان کی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہو رہی ہے ،اس شکست کے بعد شاہ محمود قریشی اگرچہ مختلف وضاحتوں کے ذریعے اپنی سیاسی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خود اس حلقہ کے امیدوار مہر بانو قریشی اپنی شکست کو فتح سے تعبیر کر رہی ہیں، کیونکہ بقول ان کے انہوں نے 13 جماعتوں کا مقابلہ کیا اور ان کے مقابلے میں 82 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے، یہ ووٹ 2018 ء کے عام انتخابات کی نسبت پانچ ہزار سے زائد ہیں، جبکہ مل کر الیکشن لڑنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ووٹوں کو اگر عام انتخابات کے ووٹوں سے ملایا جائے تو اس بار پی ڈی ایم کے امیدوار کو پہلے کی نسبت بہت کم ووٹ ملے۔ 

تاہم ان تمام تاویلوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ گیلانی خاندان نے ملتان میں اپنی سیاست کو کو بڑی مہارت کے ساتھ نہ صرف زندہ کیا ہے ،بلکہ مستقبل کے سیاسی نقشہ کے حوالے سے اس کے امکانات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو جنوبی پنجاب میں اس ایک نشست جیتنے کی وجہ سے سے بڑا سہارا ملا ہے، مظفر گڑھ میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک موجود ہے اور وہاں سے وہ کامیابی بھی حاصل کرتی رہی ہے، لیکن ملتان جو مظفرگڑھ سے صرف 25 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے پیپلز پارٹی کے لیے ناکامی کا گڑھ بن چکا تھا، 2018 ء کے انتخابات میں گیلانی خاندان اپنی پوری کوشش کے باوجود صرف صوبائی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرسکا تھا، نہ صرف یہ بلکہ پورے ضلع میں پیپلز پارٹی کو کوئی دوسری نشست نہیں ملی، یوں لگتا تھا کہ جیسے ملتان پیپلز پارٹی کے لیے لئے ایک اجنبی شہر بن چکا ہے، ویسے بھی تحریک انصاف نے 2018 ء کے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ دیئے تھے اور ملتان سے کلین سویپ کیا تھا۔ 

تحریک انصاف کی اس کامیابی کے باوجود یہ تاثر موجود تھا کہ اس شہر میں دوسرے نمبر پر اب بھی بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہے ، جبکہ پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر کھڑی ہے اور وہ بھی صرف گیلانی خاندان کی مرہون منت ہے، اس ضمنی انتخاب کے حوالے سے سے گیلانی اور قریشی خاندان کا اپنا اپنا موقف ہے، گیلانی خاندان یہ سمجھتا ہے کہ علی موسیٰ گیلانی کو میدان میں اتارنا اس لیے ضروری تھا کہ اس خاندان کی اس شہر کے لیے بے شمار خدمات ہیں ،ویسے بھی حلقہ 157 کی نشست گیلانی خاندان کی موروثی سیاست کا مرکز رہی ہے ،جبکہ شاہ محمود قریشی موروثی سیاست کے حوالے سے اپنا ایک واضح موقف رکھتے ہیں، جب مہر بانو قریشی کو امیدوار بنانے اور انتخاب میں ان کی شکست کے بعد شاہ محمود قریشی پر تنقید کے نشتر برسائے گئے ،تو انہوں نے یہ واضح کیا کہ مہربانو قریشی کو امیدوار بنانے کا فیصلہ ان کا نہیں ، بلکہ عمران خان کا تھا،گویا ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر عمران خان منظوری نہ دیتے، تو مہربانو قریشی کو امیدوار نہ بنایا جاتا ،ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حلقہ میں تحریک انصاف کے پاس کوئی مضبوط امیدوار ہی نہیں تھا ،کیونکہ جو امیدوار بن سکتے تھے۔

انہوں نے اس خیال سے کہ منتخب ہونے کے بعد پارٹی پالیسی کے مطابق انہیں مستعفی ہونا پڑےگا اور یوں ان کا انتخابی مہم پر کروڑوں روپے ضائع جائے گا، چونکہ تحریک انصاف پی ڈی ایم کے امیدوار کو واک اوور نہیں دینا چاہتی تھی اور اس نشست سے تحریک انصاف کے امیدوار پہلے بھی کامیاب ہو چکے تھے، اس لئے مہربانو قریشی کو بطور امیدوار سامنے لایا گیا ، موروثی سیاست کا الزام تحریک انصاف کے اندر سے بھی شاہ محمود قریشی پر لگایا گیا اور اسے شکست کی وجہ قرار دیا گیا، مگر اس تنقید کا جواب شاہ محمود قریشی اور مہر بانو قریشی نے بڑے تحمل کے ساتھ دیا اور کہا کہ پی ڈی ایم کا امیدوار بذات خود موروثی سیاست کا علمبردار تھا، صرف پی ٹی آئی کے امیدوار کو تنقید کا نشانہ بنانا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مہر بانو قریشی کی سیاست میں انٹری کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

حالانکہ ان کی الیکشن میں پرفارمنس اور انتخابی مہم کے دوران ان کی کارکردگی ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر رہی ہے ،کیونکہ وہ سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے پہلی بار امیدوار بننے کے باوجود ان کا اعتماد اور ان کا سیاسی رویہ ان کی پختہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے ، ادھر ملتان میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ جلد ہی کچھ اور استعفے بھی منظور ہونے والے ہیں، جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی نشستیں خالی ہو جائیں گی اور ان پر بھی ضمنی انتخاب ہو گا،باخبر ذرائع کے مطابق استعفے منظور کرنے کے دوسرے مرحلہ میں ملتان کے دو تو قومی اسمبلی کے حلقے بھی شامل ہوں گے، اگر ایسا ہوا تو ایک بار پھر ملتان توجہ کا مرکز بن جائے گا، اگر شاہ محمود قریشی کی نشست استعفیٰ منظور ہونے کے بعد خالی ہوتی ہے، تو قریشی خاندان کے قریبی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اس حلقہ سے ایک مرتبہ پھر مہربانو قریشی کو ضمنی انتخاب میں امیدوار نامزد کیا جائے گا۔ 

ان کے مقابل کون آ تا ہے ، یہ ایک دلچسپ سوال ہوگا، کیونکہ پی ڈی ایم اتحاد کے فارمولا کے مطابق عام انتخابات میں جس پارٹی کا امیدوار دوسرے نمبر پر رہا ،اس کو اس حلقہ میں ٹکٹ دی جائے گی شاہ محمود قریشی کے حلقہ این اے 156 سے 2018 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار عامر سعید انصاری دوسرے نمبر پر رہے تھے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس اس حلقہ سے کوئی مضبوط امیدوار ہی نہیں ہے ، جبکہ خود اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کے اندر ایک تفرقہ موجود ہے اور مختلف گروپ کھینچا تانی کا شکار ہیں، بہر حال اس ساری صورتحال میں الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ سیاست میں ایک نئی ہلچل مچاگیا ہے۔ 

ابھی یہ سلسلہ عدالتوں میں چلے گا اور نہ جانے اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے ، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان بھی ناقابل تسخیر نہیں رہے، بلکہ نا اہلی کی زد میں آچکے ہیں ، اب ان کا اگلا راستہ کیا ہوتا ہے، اس بارے میں کل معلوم ہوگا ، تاہم یہ بات ہے کہ سیاست کی جو گرم بازاری ایک عرصے سے جاری ہے ،اس میں ٹھہراؤ آ نے والا نہیں ، وزیراعظم شہباز شریف واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے،جبکہ عمران خان فوری انتخابات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان دونوں میں نفسیاتی جنگ جاری ہے اور آنے والے چند ہفتے اس سلسلہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید