خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے بعد اب سندھ میں بھی علیحدگی پسند ملک دشمن عناصر نے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں آئے دن ریل کی پٹریوں پر دھماکے کرنے کے علاوہ قتل و غارت گری اور اسلحے کی ترسیل بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ایک حصہ ہے، جب کہ اس کے لیے ملک دشمن علیحدگی پسند طاقتوں کو بیرونی آقاؤں کی آشیرباد اور ان کا سرمایا حاصل ہے۔ اس لیے ان کو منظم طریقے سے کارروائی کرنے کے لیے صرف افرادی قوت درکار ہوتی ہے اور بدقسمتی سے اس وقت سندھ میں سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے کاروبار فصلوں کی تباہی کےباعث بڑی تعداد میں نوجوان جو کہ بے روزگار ہوئے ہیں ان کے ذہنوں کو مسموم کرکے اپنے مقاصد میں استعمال کرنا آسان ثابت ہو رہا ہے۔
تاہم اس صورت حال کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے علاوہ کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی اپنے حصے کا کام انجام دے رہا ہے۔ کاؤنٹر ٹیریزم ڈیپارٹمنٹ CTDشہید بے نظیر آباد رینج کی جانب سے گزشتہ روز کارروائی کر کے کالعدم تنظیم BLA کا ایک دہشت گرد گرفتاراور اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی بینظیر آباد رینج کے ترجمان کے مطابق عبدالخالق راجپر لنک روڈ کے قریب خفیہ اطلاع پر سی ٹی ڈی کی ٹیم نے چھاپہ مارکر کالعدم تنظیم بی ایل اے کے اہم دہشت گردغفار ڈومکی ولد مراد ڈومکی کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سےایک ٹی ٹی پستول 4گولیاں برآمد کرلیں۔
دہشت گرد کے خلاف سی ٹی ڈی سکھر میں ایک مقدمہ 17/2022U/C 4/5 ایکسپلوزو ایکٹ 7ATA 1997 34ppcدرج کیا گیا تھا،جس میں یہ دہشت گرد مفرور تھا، سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق اس موقع پر گرفتار دہشت گرد غفار ڈومکی نےاعتراف کیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم بی ایل اے سے تعلق رکھتا ہے اور اس نے دیگردہشت گرد ساتھیوں عزیز ڈومکی ،مٹھا خان ڈومکی کے ساتھ مل کر ماضی میں ملک دشمن دہشت گرد کاروائیاں کی ہیں اور اس کے دونوں ساتھی اس وقت سینٹرل جیل خیرپور میں ہیں، گرفتار ملزم عبدالغفار ڈومکی نے بتایا کہ وہ سندھ میں دہشت گردوں کو اسلحہ کی ترسیل کا کام کرتا ہے۔
سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق ملزم نے سال 2021 میں دہشت گردی کے لیے ہیوی مشین گن ، ہینڈ گرینیڈاور دیگر جدید اسلحہ چلانےکی ٹریننگ صمد ڈومکی کے بی ایل اے کے کیمپ میں حاصل کی تھی، ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ IEDs لگانےمیں مہارت رکھتا ہےاور کالعدم تنظیم بی ایل اےکے کمانڈر منظور ڈومکی کی ہدایت پر ماضی میں سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث رہا ہے، جب کہ سندھ میں دھماکا خیز مواد اور اسلحہ کی ترسیل میں بھی شامل رہا ہے۔
تاہم اس سلسلے میں جب تحقیق کی گئیں، تو یہ صورت حال سامنے آئی کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے ماضی میں جو دہشت گرد پکڑے گئے، ان کی اکثریت کمزور بنائے گئے۔ مقدمات میں شک کا فائدہ حاصل کرکے آزاد ہو چکے ہیں، ایسا کیوں ہوا، اس بارے میں ڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بڑے بڑے وکیلوں کا سامنا کر سکے اور قانونی موشگافیوں کی وجہ سے سب زیادہ فائدہ وہ عناصر اٹھاتے ہیں، جن کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ جب بھاری سرمایا اس کی پشت پر ہو، تو پھر سب کام آسان بن جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس پراسیکیوشن انتہائی کمزور ثابت ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں عرصے سے کوشش جاری ہے۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں سینئر پولیس افسران کی تجاویز مانگی گئی ہیں اورامید یہ ہے کہ جلد شعبہ پراسیکیوشن میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں گے۔ دوسری جانب انسپیکٹر جنرل آف پولیس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے اطلاعات مظہر ہیں کہ اس بارے میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق شعبہ انویسٹی گیشن میں کام کرنے والے پولیس اہل کاروں کی تنخواہ بڑھانے کے فیصلے کے علاوہ تفتیشی افسران کو تین سال تک انویسٹی گیشن کے شعبے میں ہی کام کرنا ہوگا، کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ انویسٹی گیشن پولیس کو الگ کیڈر بنانے کا بھی فیصلہ سامنے آیا ہے کہ قتل کے کیسز کے لیے ایکسپرٹ انوسٹی گیٹر کو تعینات کرنے کا کہا گیا ہے اورقتل ،اغوا برائے تاوان کے کیسز کے دوران ایک لاکھ روپے کیس خرچ کے لیے دیے جائیں گے، جب کہ تفتیش کی انویسٹی گیٹر کو پچاس فی صد رقم ایڈوانس دی جائے گی۔ آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا ہے کہ ڈی این اے اور پوسٹ مارٹم کے لیے تمام اخراجات تفتیشی افسر کو محکمہ پولیس کی جانب سے دیے جائیں گے، جب کہ اس سلسلے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ انویسٹی گیشن پولیس کے قوانین کو جانچنے کے لیے ڈی ای جی سی آئی اے کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جائے گی۔
اس سلسلے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ چوں کہ پچاس من چرس کا ٹرک ہر پیشی پر کورٹ لے جانا مشکل کام ہے، اسی طرح کیس پراپرٹی کو عدالت میں تفتیشی پولیس افسر ہر پیشی پر پیش کرتا ہے۔ اس بارے میں فیصلہ کیا جائے کہ حکومتی سطح پر بات کر کے قوانین میں تبدیلی کی کوشش کی جائے گی، جب کہ تفتیشی افسران کو ڈیجیٹل کی ٹریننگ دی جانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا ہے کہ شعبہ انویسٹیگیشن روزانہ کی بنیاد پر کیسی اپ ڈیٹ دیں گے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے والے افسران کو انعام بھی دیا جائے گا۔
ادھر دوسری جانب سی آئی اے پولیس کے مطابق قاضی احمد قومی شاہ راہ پر مسافر کوچ کو لوٹنے اور مزاحمت پر کوچ ڈرائیور رانا عمر کو فائرنگ کرکے قتل کرنے واردات میں مطلوب تین ڈاکوؤں کو پولیس نے مقابلے کے بعد گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کرلیا۔ ترجمان سی آئی اے پولیس کے مطابق قتل ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ڈاکوؤں کے بین الصوبائی گروہ کے تین ارکان کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب وہ ڈکیتی کی واردات کے لیے قومی شاہ راہ پر جمع تھے۔
اس سلسلے میں پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں پنجاب جانے والی کوچ میں قاضی احمد کے قریب لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر ڈرائیور رانا عامر کو ہلاک کر دیا تھا پولیس نے تین ڈاکوؤں شمن ملاح ،نجو کھوسو اور صاحب ملا ح کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے 2 کلاشنکوف ریپٹر برآمد کئے ہیں ۔ ادھر قاضی آباد پولیس نے برساتی کیمپ سے اغوا ہونے والی دس سالہ بچی کو مورو سے بازیاب کرا کر اغوا کار کو گرفتار کرلیا، اس سلسلے میں پولیس کے مطابق ملزم یونس چانڈیو نے بارش متاثرین کے قاضی احمد بائی پاس پر موجود کیمپ سے دس سالہ بچی دُعا کو بہلا پھسلا کر اور اسے نئے کپڑے دلانے کے بہانے اغوا کیا اور مورو لے جاکر چھپا دیا۔
پولیس کے مطابق بچی کے والد نے اغوا کی رپورٹ درج کرائی، جس کے بعد بچی کو تلاش کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کے والد صاحب نے بعد ازاں پولیس کو اطلاع دی کہ اس کی بچی کو مورو میں دیکھا گیا ہے، جس کے بعد پولیس نے مورو پولیس کے ساتھ مل کر ایک گھر پر چھاپہ مار کر دس سالہ بچی دعا کو برآمد کرلیا۔اس موقع پر ملزم یونس چانڈیو نے اعتراف کیا کہ اس نے کئی بچیوں کو اغوا کیا ہے اور بھیک مانگنے والوں کے ہاتھوں بیچا ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کا کہنا ہے کہ سندھ میں اغوا ہونے والے بچوں کے اغوا کاروں کے نیٹ ورک تک پہنچنے کے لیے یونس چانڈیو سے تفتیش جاری ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں اہم انکشافات متوقع ہے۔