• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے بعد دہشت گردی کے واقعات تھم گئے تھے اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی گئی تھیں۔ تاہم رواں برس دہشت گردی کے واقعات پھر سے دیکھنے میں آئے ہیں۔اس بارعلیحدگی پسند گروپ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ چینی قونصلیٹ پر حملہ،کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ،ریلوے ٹریکس پر دھماکے،کراچی یونی ورسٹی میں چینی اساتذہ پر کیا جانے والا خودکُش حملہ،صدر اور کھارادر کے علاقوں میں ہونے والے دھماکے اور صدر میں ڈینٹل کلینک پر کیے گئے حملوں میں یہی گروپ ملوث بتائے گئے ہیں۔

28 ستمبر کو دہشت گردوں نے صدر کے مصروف ترین علاقے میں واقع HU ڈینٹل کلینک میں فائرنگ کر کے دہری شہریت کے حامل رونلڈ رائمنڈ کو ہلاک، جب کہ ڈاکٹر رچرڈ ہونو پائو اور ان کی اہلیہ فن ٹائن پائو کو زخمی کیا تھا،واقعے کے بعد دہشت گرد موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے تھے۔ فائرنگ کرنے والا ملزم کلینک میں مریض بن کر دانتوں کی صفائی کے بہانے آیا تھا اور کچھ دیر کلینک میں بیٹھنے کے بعد اپنا نمبر آنے پر اس نے مذکورہ افراد پر فائرنگ کی اور اپنے ساتھی کے ساتھ فرار ہو گیا۔ 

دونوں میاں بیوی قیامِ پاکستان کے بعد بھارت کے شہر کولکتہ سے ہجرت کرکے کراچی منتقل ہوئے اور پاکستانی شہریت اختیار کی، جب کہ ان کے پاس کینیڈین شہریت بھی ہے۔72 سالہ رچرڈ ہونو پاؤ قیامِ پاکستان کے بعد 1950 میں بھارت کے شہر کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ یہ خاندان کلفٹن بلاک 5 میں رہائش پذیر ہے۔ ڈاکٹر رچرڈ کی اہلیہ 75 سالہ فن ٹائن پائو پاکستان بننے کے 3 ماہ بعد 1947 میں کولکتہ میں پیدا ہوئیں۔ 

وہ اپنے شوہر سے ڈھائی سال بڑی ہیں۔ اس جوڑے کے 4 بچے، ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے کراچی اور جام شورو میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔ چاروں بچے پاکستانی، امریکن اور کینیڈین شہریت رکھتے ہیں۔ ایک بیٹا اور بیٹی بہتر مستقبل کے لیے کینیڈا منتقل ہوئے، جہاں قیام کے دوران انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کی۔ 

انہوں نے اپنے والدین کو بھی کینیڈین شہریت دلائی۔ دوسری بیٹی اور بیٹا امریکا گئے ، جہاں انہوں نے امریکی شہریت بھی حاصل کی۔ اس خاندان کے بعض افراد قیام پاکستان سے قبل 1928 میں کراچی بھی آگئے، جو صدر میں مختلف نوعیت کے کام کاج کرتے تھے۔ رچرڈ ہونو پاؤ کا خاندان مسیحی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد دیگر مہاجرین کی طرح یہ خاندان بھی 1960 میں کولکتہ سے ہجرت کرکے کراچی پہنچا۔ ان کے دادا، دادی اور والدین کراچی کے گورا قبرستان میں دفن ہیں۔

اس دہشت گرد حملے کے بعد ہی سے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر اداروں نے واقعے کی تفتیش اور ملزمان کا سراغ لگانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔گزشتہ دِنوں کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سندھ نے خفیہ اطلاعات پر حساس اداروں کی مدد سے ٹارگٹڈ کارروائی کرتے ہوئے اس دہشت گرد حملے میں ملوث سندھ ریوولیوشن آرمی سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد وقار خشک کو گرفتار کر لیا، ملزم سے واردات میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی برآمد کر لی گئی۔ 

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجاز شیخ اور دیگر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گرد تنظیم سندھ ریوولیوشن آرمی/ سندھ پیپلز آرمی کے دہشت گردوں نے HU ڈینٹل کلینک صدر کراچی کو ٹارگٹ کیا، جس میں دہری شہریت یافتہ شخص رونلڈ رائیمنڈ چاؤ ہلاک ہوا ۔ دہشت گرد تنظیم کا ٹارگٹ ڈاکٹر ریچرڈ ہونو پاؤ اور ان کی اہلیہ فن ٹائن پاؤ تھے ، جو اس ٹارگٹڈ کارروائی میں زخمی ہوئے ۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی سندھ نے خفیہ اداروں کی مدد سے دہشت گرد کے فٹ پرنٹ کا بہ خوبی جائزہ لیتے ہوئے دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھا، سی سی ٹی وی فوٹیج اور جسمانی خدو خال کی مدد سے دہشت گرد کے HU ڈینٹل کلینک آتے ہوئے اور جاتے ہوئے جائزہ لیا گیا اور تقریباً 100 سے زائد کیمروں کی مدد لی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مخبران کی مدد سے ملزم تک رسائی حاصل کی گئی اور ملزم وقار خشک کو سی ٹی ڈی نے کام یاب کارروائی میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم کا تعلق دہشت گرد تنظیم ایس آر اے کی ذیلی تنظیم سندھ پیپلز آرمی سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک دشمن عناصر کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان کسی صورت میں آسان ہدف نہیں، وہ وقتی طور پر اپنی کارروائی میں کام یاب تو ہوسکتے ہیں ، لیکن ان کا انجام بُرا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ سی ٹی ڈی اور حساس اداروں کو شاباش دیتے ہیں کہ انہوں نے ایک اور دہشت گردی کے واقعے میں ملوث ملزم کا سُراغ لگا کر اسے گرفتار کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر میں ڈینٹل کلینک کے افسوس ناک واقعے کا وزیر اعلیٰ سندھ نے نوٹس لیا تھا اور سی ٹی ڈی کو کیس حل کرنے کا ٹاسک دیا گیا،انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے پاکستان کے حساس اداروں کی معاونت سے مختصر عرصے میں یہ کیس حل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں دہشت گردی کے جتنے بھی بڑے واقعات ہوئے ہیں، ان کو حل کرنے میں سی ٹی ڈی اور سندھ پولیس کا اہم کردار رہا ہے، کراچی یونی ورسٹی بلاسٹ ، صدر بم دھماکا ، کھارا در بم دھماکے، سانحہ صفورا اور معروف قوال امجد صابری شہید کے قاتلوں کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا ہدف کوئی فرد نہیں، بلکہ پاکستان ہے۔ 

خوف کا ماحول پیدا کر کے بیرونی سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں کو روکنا ان کا مقصد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک مخالف لوگ ہمارے معصوم لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجاز شیخ کے مطابق گرفتار ملزم اصغر علی شاہ عرف سائیں اور ذوالفقار خاصخیلی عرف سفیر سے رابطے میں تھا، ملزم کو یہ ٹارگٹ ذوالفقار خاصخیلی نے دیا ،ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے اور دیگر تھانہ جات سے ملزم کے بارے میں تائید و تصدیق کی جا رہی ہے ،انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم وقار خشک پہلے مسنگ پرسن کے احتجاج میں شریک ہوتا تھا، بعد میں گروہ کے سرغنہ اصغر علی شاہ سے رابطے میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ بی ایل اے، ایس آر اے سمیت دیگر تنظیمیں مل کر دہشت گردی کے لیے کام کر رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں سی ٹی ڈی اور حساس ادارے نے صدر میں ڈینٹل کلینک پر حملے میں ملوث کلعدم تنظیم کے مزید دو کارندوں کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان میں نبیل احمد اور وزیرعلی خشک شامل ہیں، جنھیں سی ٹی ڈی اور حساس ادارے نے مبینہ ٹاؤن کے علاقے گلزار ہجری رود ماڈل پارک کے قریب سے گرفتار کیا۔ ملزمان کا ایک ساتھی وقار احمد خشک پہلے ہی گرفتار ہو چکا ہے۔ 

پولیس نے بتایا کہ ملزم نبیل احمد واقعے کے وقت موٹر سائیکل پر موجود تھا، جب کہ وزیرعلی خشک واقعہ کا سہولت کار ہے۔ ملزمان کے قبضے سے نائن ایم ایم پستول بمعہ 6 رائونڈز اور تیس بور پستول بمعہ 5 رائونڈز بھی برآمد کیے گئے ہیں۔ گرفتار ملزمان کا تعلق ایس آر اے کی ذیلی تنظیم ایس پی اے ( سندھو دیش پیپلز آرمی ) سے ہے،گرفتار ملزمان سے مزید تفتیش جاری ہے ۔‘‘

یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ رواں برس ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر اور مربوط بنایا جائے، تاکہ ان حملوں سے پہلے ہی ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید