1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی کام یاب فلم ’’آدمی‘‘ کی کہانی برصغیر کے عظیم اداکار دلیپ کمار کے بھائی لالہ ایوب سرور خان نے لکھی تھی۔ یہ کہانی ان سے فلم کے ہدایت کار لقمان نے ان دنوں میں لکھوائی تھی، جب قیامِ پاکستان سے قبل وہ ہندوستان میں تھے۔ ایک کہانی انہوں نے دلیپ کمار صاحب سے بھی لکھوائی تھی، جس پر انہوں نے 1981ء میں فلم ’’وفا‘‘ بنائی تھی، جس میں بابرہ شریف اور آصف رضا میر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
فلم ’’آدمی‘‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے پاکستان میں بننے والی پہلی فلم تھی، جس میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کی معاشی مشکلات کو دکھایا گیا تھا۔ اس فلم کا اسکرپٹ علی سفیان آفاقی نے تحریر کیا تھا، جبکہ مکالمے فراز ادیب نے لکھے تھے۔
فلم کی کہانی کچھ یُوں تھی کہ احمد (حبیب) ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا، جس نے اپنے مستقبل کے لیے بڑے اونچے اور سہانے خواب دیکھے تھے۔ ملازمت نہ ملنے کی صورت میں اسے کوئلے کی کان میں معمولی مزدور کی ملازمت مل گئی تھی۔ مزدوروں کی اس بستی میں اسے ایک مشرقی بیوی پروین (یاسمین) کا پیار ملا، کان میں مزدور لیڈر شیرا (علاو الدین) کی سچی دوستی میسر آئی، لیکن احمد ہمیشہ دولت مند بننے کے خواب بنتا رہا۔ ایک روز جب کان کا مالک سیٹھ حامد جو کہ احمد کا ہم شکل تھا، وہ کان کے دورے پر آیا اور احمد سے مل کر بے حد متاثر ہوا۔ احمد نے اپنے ہم شکل سیٹھ کو دیکھ کر یہ سوچ لیا کہ کاش! میں بھی سیٹھ بن جائوں۔ سیٹھ حامد نے احمد کو ایک روز اپنی ایک پارٹی میں بُلایا اور اسے بت بنا کر اپنے دوستوں سے خوب داد وصول کی۔
سیٹھ حامد کے نزدیک آدمی کی حیثیت کوئلے کے ڈھیر سے زیادہ نہ تھی۔ سیٹھ حامد کی منگیتر شمیم (نیر سلطانہ) حامد کے خیالات کے برعکس سوچتی تھی۔ شمیم کا والد (غلام محمد) بھی اپنی بیٹی کے خیالات کا حامی تھا ، جس نے ایک دن حامد کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ شمیم کا دل جیتنا ہے، تو انسانیت کا علمبردار بن کر اس کے سامنے جاؤ، تو یہ تمہاری محبت قبول کرلے گی۔ ایک روز حامد اپنے محل نما مکان سے مزدوروں کی بستی کی طرف دیکھتا ہے، تو اس کی نظریں احمد کی بیوی پروین پر پڑتی ہیں، تو وہ اس کے حسین سراپے میں کھوجاتا ہے۔
حامد کے دو خاص چمچے ٹائپ کے ملازم طالش اور دلجیت مرزا ہوتے ہیں، جو حامد کی ہر وقت خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ حامد ان سے کہہ کر احمد پر مہربانیوں کی بارش کردیتا ہے، کیوں کہ اس کی بیوی پروین اسے پسند آگئی تھی۔ ایک روز سیٹھ حامد شِکار کا پروگرام بناتا ہے اور احمد کو بھی لے جاتا ہے۔ جھیل میں دونوں نہا رہے ہوتے ہیں، تو احمد کو سیٹھ بننے کا خیال آتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر اس وقت وہ سیٹھ کو مار کر خود اس کی جگہ سیٹھ بن جائے، تو اس کے سارے خواب پُورے ہوسکتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ سیٹھ حامد کو جھیل میں دھکا دے دیتا ہے اور سیٹھ ڈُوب جاتا ہے۔
احمد یہ مشہور کردیتا ہے کہ احمد پانی میں ڈُوب گیا ہے۔ یہ خبر پروین تک پہنچتی ہے، وہ سیٹھ کو اس کا ذمے دار قرار دیتی ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ حامد جو کہ اب سیٹھ حامد بن جاتا ہے، مگر اس کی وفا شعار بیوی اس سے دُور ہوجاتی ہے۔ دولت مل جانے کے بعد احمد کا سکون چلا جاتا ہے۔ دولت کے لالچی احمد کو اب اس بات کا ادراک ہوا کہ اس نے خوشیوں کے بدلے سلگتے ہوئے انگاروں کا سودا کیا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے بچے کو سینے سے بھی نہ لگا سکا۔ اس کا بچہ اس کے سامنے بیمار ہوکر مرگیا۔
اس کی دولت اور مقام اس کی ہنسی اڑاتا رہا۔ اس کی بیوی نے اسے سیٹھ حامد سمجھا اور اپنے خاوند کا قاتل سمجھتے ہوئے اس کی ہر امداد کو ٹھکرا دیا۔ فاقہ کشی میں پتھر توڑنے کی مزدوری کرنا گوارا کی، مگر اس کی امداد کو نہ قبول کیا۔ بچے کی موت کے بعد پروین کی نفرت میں اور اضافہ ہوگیا اور وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھی۔ شیرے نے ایک بھائی کی طرح پروین کا خیال رکھا۔ پروین اپنے خیالوں میں بچے کو جھولا دیتے ہوئے لوریاں سنانے میں کھو جاتی ہے؎
جاگ تقدیر کو جگا لوں گی
ایک روز احمد کا اصل روپ سیٹھ حامد کے بولتے طوطے نے کھول دیا۔ یہ منظر سیٹھ حامد سے دونوں سیکرٹریرز نے بھی دیکھ کر اندازہ کرلیا کہ یہ احمد ہے، سیٹھ حامد نہیں! ایک روز ان دونوں سیکرٹریز نے احمد کی زبان سے اقرار کروا لیا کہ اس نے دولت کی لالچ میں سیٹھ حامد کو جھیل میں دھکا دے دیا تھا۔ سیٹھ حامد تو جھیل میں سے نِکل کر ڈاکوئوں کی قید میں تھا، ایک بوڑھے پہریدار کی مدد سے وہ وہاں سے نِکل کر جارہا ہوتا ہے، تو احمد اسے ملتا ہے، تو وہ اسے دیکھ کر زور سے ہنستا ہے۔
احمد، سیٹھ کو دیکھ کر اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے۔ سیٹھ حامد کہتا ہے کہ اب تیری یہی سزا ہے کہ سیٹھ بنا رہے اور میں احمد بن کر تیری بیوی پروین کی سنہری زلفوں کے سائے تلے گزار دوں گا۔ سیٹھ حامد، احمد بن کر جب بستی میں آیا، تو شیرے اور سب نے خوشیاں منائیں۔ پروین، حامد کو احمد کہہ کر ملی۔ احمد، سیٹھ حامد کے روپ میں یہ منظر دیکھ کر کڑتا رہا، پھر ایک روز سیٹھ حامد رات کے وقت احمد کے پاس آیا کہ تیری مشرقی بیوی آج بھی تجھے یاد کرتی ہے۔ سیٹھ حامد اپنی محبت شمیم کے پاس آگیا اور احمد اپنی بیوی پروین کے پاس چلا جاتا ہے۔
ماضی کے معروف اداکار حبیب نے اس فلم میں ’’ڈبل رول‘‘ یعنی مزدور احمد اور سیٹھ حامد کا کردار ادا کیا اور دونوں کرداروں میں فطری اداکاری سے فلم بینوں سے بھرپور داد پائی۔ اس اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف 1958ء کے نگار ایوارڈ کے طور پر بھی کیا گیا۔
اداکارہ یاسمین نے فلم میں مزدور احمد کی بیوی پروین کے کردار میں جو رچائو اور کرب کی ملی جلی کیفیات پیش کی، وہ کہانی کے عین مطابق تھی۔ اداکار علاؤالدین نے مزدور لیڈر شیرا کا رول ادا کرکے عوامی سطح پر کافی مقبولیت پائی۔ اداکارہ نیر سلطانہ نے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ امیر زادی شمیم کے کردار میں بے حد خُوب صورت اداکاری کی، جو سیٹھ حامد کی منگیتر کے کردار میں فلم کی سیکنڈ ہیروئن تھیں۔
آغا طالش، دلجیت مرزا نے کوئلے کی کان کے مالک حبیب کے سیکرٹریز کے کردار کیے تھے۔ ان نمایاں اداکاروں کے علاوہ غلام محمد، رخشی، جعفری، احمد غازی، جی این بٹ، ساقی، حامد حسین، چائلڈ اسٹار مراد (یاسمین کے نومولود بچے کے کردار میں) کے نام شامل تھے۔ فلم کے موسیقار مصلح الدین اور ہدایت کار لقمان نے بھی بہ طور مہمان اداکار اس فلم میں کام کیا تھا۔
یہ فلم ادارہ ہما پکچرز کے بینر تلے بنی تھی۔ فلمساز و ہدایت کار لقمان تھے۔ بہ طور ہدایت کار وہ متحدہ ہندوستان میں 1946ء میں فلم ’’ہم جولی‘‘ بنا چکے تھے۔ 1948ء میں انہوں نے پاکستان میں پہلی مسلم سوشل فلم ’’شاہدہ‘‘ بنائی ، جو 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ 1953ء میں ان کی دوسری فلم ‘‘محبوبہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’’پتن‘‘ ان کی سپرہٹ فلم تھی۔ 1956ء میں انہوں نے اپنی فلم ’’لخت جگر‘‘ میں پہلی بار اداکار حبیب کو متعارف کروایا تھا۔
ان کی ہدایات میں بننے والی دیگر فلموں میں ’’ایاز‘‘ ’’فرشتہ‘‘ ’’اک پردیسی اک مٹیار‘‘ ’’محل‘‘ ’’دوستی‘‘ ’’پاکیزہ‘‘ ’’افسانہ‘‘ ’’دنیا نہ جانے‘‘ ’’پرچھائیں‘‘ اور ’’وفا‘‘ کے نام شامل ہیں۔ ہدایت کار لقمان نے اپنی فلم ’’آدمی‘‘ کو دوبارہ 1980ء میں ’’کروڑ پتی‘‘ کے نام سے بنانا شروع کی۔ فلم کی زیادہ ترعکس بندی ہوچکی تھی۔ اس فلم میں ان کے صاحبزادے فیصل لقمان ہیرو کا کردار کررہے تھے۔ یہ فلم نامکمل رہی۔
فلم ’’آدمی‘‘ کے موسیقار مصلح الدین تھے ، جنہوں نے اس فلم کا میوزک بے حد سریلے سازوں میں کمپوز کیا تھا۔ فلم میں کل 7؍گانے تھے۔
اس فلم کی آئوٹ ڈور شوٹنگ پاکستان کے ان علاقوں میں ہوئی، جہاں کوئلے کی اصل کانیں واقع ہیں۔ ضلع چکوال میں ایک مقام ہے، جو سیدو شریف کہلاتا ہے، اس کے پہاڑی علاقے میں ایک سیمنٹ فیکٹری ڈنڈور تھی۔ اس فیکٹری میں سیمنٹ بنانے کے لیے جو کوئلہ درکار تھا، وہ وہاں کی کانوں سے حاصل کیا جاتا تھا۔ فلم کے ہدایت کار لقمان اپنے پورے یونٹ کے ساتھ ایک مہینے تک ان علاقوں میں فلم کی آؤٹ ڈور اوریجنل مقام پر شوٹنگز کرتے رہے۔ ڈنڈوز سیمنٹ فیکٹری میں بھی شوٹنگ ہوتی رہی۔ اداکار حبیب کو اس فیکٹری کے مالک سیٹھ حامد کا کردار سونپا گیا اور دوسرا کردار اس فیکٹری کے لیے کوئلہ حاصل کرنے والی کان کے مزدور احمد کا تھا۔ فلم ’’آدمی‘‘ اپنے دور کی ایک کام یاب اور یادگار فلم تھی، جس کا شمار سیمی آرٹ موویز میں ہوتا ہے۔