اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نےʼʼ ریکوڈک کے نئے معاہدہ ʼʼسے متعلق وفاقی حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سینئر وکلاء ،بیرسٹر فروغ نسیم، سلمان اکرم راجہ اور زاہد ابراہیم کو امائیکس کیورائے (عدالت کا دوست یا معاون )مقرر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ حکومت بتائے کونسی پالیسی کے تحت نیا ریکوڈک معاہدہ تشکیل دیا گیاہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ صدارتی ریفرنس میں سیاسی معاشی سوالات کا جائزہ نہیں لے سکتے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے منگل کے روز ریفرنس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ رولز میں نرمی خلاف قانون کی گئی، ایک بین الاقوامی کمپنی کیلئے رولز میں نرمی کا اختیار نہیں تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب بھی رولز وہی ہیں یا ترمیم ہوچکی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک سے متعلق قانون میں ترمیم ہوچکی ہے، نئے قانون کے تحت حکومت رولز میں ترمیم کر سکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ رولز میں نرمی ہو بھی تو شفافیت لازمی ہے، فاضل لاء افسر نے کہا کہ ریکوڈک سے نکالی گئی معدنیات میں پاکستان کا حصہ پچاس فیصد ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حصہ جتنا بھی ہے لیکن قانون پر عمل کرنا لازمی ہے، لاء افسر نے جواب دیا کہ قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جا رہا ، ریکوڈک معاہدہ ماضی کے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ریکوڈک پر موجودہ حالات میں اس سے اچھا معاہدہ ممکن نہیں تھا، انہو ں نے کہاکہ اگر یہ نیامعاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو 9 ارب ڈالرز سے زائد ادا کرنا ہوں گے،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ بین الاقوامی معاہدے سے کوئی تیسرا فریق متاثر ہو تو کیا اس کی حق تلفی نہیں ہوگی؟ انصاف تک رسائی کا حق ہر شخص کو آئین نے دیا ہے، حکومت اربوں کی سرمایہ کاری پر 1970 کے قوانین کیوں لاگو کرنا چاہتی ہے؟ حکومت بین الاقوامی سطح کے نئے قواعد و ضوابط کیوں نہیں بناتی ؟ کیا بلوچستان حکومت نے کان کنی سے متعلق نئے قوانین بنائے ہیں یا نہیں؟