قبائلی ضلع کرم سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 45 کے ہونےوالے ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج سامنے آچکے ہیں ان نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 20748ووٹ لیکر اس نشت پر بھی کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 13 جماعتی اتحاد کے امیدوار جمیل خان 12718 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے یوں خیربختونخوا سے خالی ہونےوالے چاروں نشستوں پر عمران خان نے کامیابی حاصل کی پشاور،مردان اور چارسدہ سے قومی اسمبلی نشستیں بھی عمران جیت چکے ہیں۔ 2018 کے ضمنی انتخابات میں ضلع کرم کے اس حلقے سے جے یو آئی کا امیدوار کامیاب ہوا ، تاہم خالی ہونے پر اس پر پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی تھی اجتماعی استعفوں کی وجہ اسی حلقے میں تیسری بار انتخابات ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ ٹرن آوٹ 20 فیصد سے بھی کم رہا۔
اس حلقے سے کل 14 امیدوار میدان میں تھے جس میں 8 امیدواروں نے 100 سے بھی کم ووٹ لئے۔ اس حلقہ میں کل ووٹرز کی تعداد198618 میں مرد ووٹرز 111349 جبکہ خواتین 87269 تھی۔143 پولنگ سٹیشنز میں کل 36676 رائے دہندگان نے ووٹ کا حق استعمال کیا جن 23975 مرد اور 12701 خواتین شامل تھیں۔ گنتی سے نکالے گئے ووٹوں کی تعداد 1160 بتائی گئی یوں اس ضمنی الیکشن میں ٹرن آوٹ47 . 18 فیصد رہا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق دیگر تین نشتوں کی طرح اس نشست پر بھی عوام نے ووٹ پی ٹی آئی سے زیادہ عمران خان کو دیاہے ،اگر یہاں بھی عمران خان کی بجائے انکی پارٹی کا کوئی اور امیدوار ہوتا تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔
خیبرپختونخوا میں ایک جانب ملاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردوں اور طالبان شدت پسندوں کی دوبار ہ آمد اورسوات کے غیور اور امن پسند عوام کی جانب سے انہیں پسپائی پر مجبور کرکے سوات کا امن دوبار ہ خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی خبریں زبان زد عام ہیں تو دوسری طرف صوبے میں ضم بعض قبائلی اضلاع خصوصاً شمالی وزیرستان اور ضلع خیبرکے دور آفتادہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز اور پولیس پر جوابی حملوں میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں بڑھتی ہوئے بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے باعث بعض علاقوں کے نوجوانوں کی طالبان گروپوں کے ساتھ رابطوں اور ان کے ساتھ شامل ہونے کی بری خبریں بھی آرہی ہیں، جس سے نہ صرف ان علاقوں بلکہ پورے صوبے کے امن و امان کو سنگین خدشات لاحق ہوسکتے ہیں، حکومت نے عجلت میں ان قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل تو کیا مگر ان کی احساس محرومی دور کرنے کے لئے ان سے کئے گئے وعدے تاحال پورے نہیں کئے گئے جس کی وجہ ان قبائلی اضلاع کی حالت دن بد ن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، نہ توان علاقوں میں بے روزگاری کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات اٹھائے گئے نہ ہی ان علاقوں کے نوجوانوں کو تعلیم دلانے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے گئے جس کی وجہ ان علاقوں کے عوام میں احساس محرومی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔
اس سے قبل ان علاقوں قائم تھوڑی بہت امن و امان کی صورت حال بھی خراب ہوجائے حکومت کو ان علاقوں کے عوام کی احساس محرومی دور کرنے اور نوجوانوں کی تعلیم کے لئے خصوصی اقدامات اٹھانے چائیے ورنہ ایک مرتبہ پھر صوبے کے امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہونگے ،امن و امان کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن سمیت ضم قبائلی اضلاع کے عوام قیام امن کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں وفاقی حکومت نے تو مخالف جماعت کی حکومت ہونے کی وجہ سے لب سی لئے ہیں لیکن صوبائی حکومت کو بھی ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ موصول ہورہی ہے اگر واقعی گھبرانے کی بات نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں شہری سڑکوں پر کیوں نکل رہے ہیں ۔ادھر لاہور سے شروع کئے جانیوالے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شرکت کیلئے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا کے ارکان اسمبلی اورکارکنوں کو بھی متحرک کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت جلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے منتخب ارکان اسمبلی کو لانگ مارچ میں مطلوبہ تعداد پورا کرنے اور اہداف حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئ ہے، ہر رکن اسمبلی کو ایک ہزار تک کارکن لانے کا ہدف دیا گیا ہے اور لائے جانے والے افراد کی مکمل تفصیل پہلے سے پارٹی قیادت کو ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ارکان اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ ہر حلقے کا ایم پی اے جلوس کی قیادت خود کرے گا اور جن حلقوں میں پی ٹی آئی کا رکن اسمبلی نہیں ہے وہاں سے جلوس کی قیادت کی ذمہ داری پارٹی کے ضلعی صدور نبھائیں گے۔کارکنوں کے ان جلسوں کو اسلام آباد پہنچنے کا ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ دارالحکومت پشاور سے مرکزی جلوس کی قیادت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور سابق وزیر داخلہ پرویز خٹک کریں گے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے پشاور کا مختصر دورہ کیا اس دوران انہوں نے پشاور میں وکلاء کنوینشن سے خطاب بھی کیا جبکہ بعد ازاں خیبر پختونخوا اسمبلی کے پارلیمانی پارٹی کے ارکان سے ملاقات کی اور انہیں لانگ مارچ کے حوالے سے ہدایات جاری کیں ۔قومی اسمبلی کے ارکان کو تین ہزار جبکہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کو ایک ہزار لوگ جلوس کی شکل میں اسلام آباد پہنچانے کی ذمہ داری دی گئی ۔ اقتدار کیلئے رسہ کشی کی اس دوڑ میں سیاستدان ملک کی معاشی بدحالی اور عوام کو مہنگائی اور افراط زر کی صورت میں درپیش شدید مشکلات یکسر بھول چکے ہیں۔
وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین اختلا فات کے نتیجے میں پختونخوا کے عوام کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں ، اور صورت حال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گذشتہ ماہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تاخیر سے ادا کی گئی جبکہ رواں ماہ کے دوران بھی مالی مشکلات آڑھے آنے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اسی طرح صوبے میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام کو بدامنی اور قدرتی آفات کے بعد صوبے محکمہ صحت کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ڈینگی وباء نے بھی عوام کو گھیر لیا ہے۔