• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لانگ مارچ: عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا

سابق وزیر اعظم عمران خان کے لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کا انجام کیا ہوگا اس کا فیصلہ تو ابھی ہونا باقی ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ملکی سیا ست کا محور اس وقت یہی لانگ مارچ ہے۔ہر جانب اسی کا تذکرہ ہے۔ سوال سب کے ذہن میں ایک ہی ہے کہ کیا عمران خان لانگ مار چ کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا نہیں ؟؟ ان کا بنیادی اور بظاہر تو ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری الیکشن کرائے جائیں لیکن پس پردہ ان کا مقصد اس ماہ کی اہم تقرری کیلئے دبائو ڈالنا بھی ہے۔ عمران خان بیشتر فیصلے جذبات کی رو میں بہہ کر اور ضد و انا کی اسیری میں کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اپنے لئے خود ہی مشکلات بھی پید اکرلیتے ہیں لیکن چونکہ کھلاڑی ہیں اس لئے گھبراتے بالکل نہیں ہیں اور نتائج کی پروا ہ کئے بغیر میدان میں ڈٹ جاتے ہیں۔ 

سو اب بھی عمران خان نے اپنے سیا سی کیر یئر کا سب سے بڑا جو ا کھیلا ہے۔باد ی النظر میں اس بار ان کی کا میابی کے امکانات کم اور شکست کے امکانات زیادہ ہیں۔ انہیں25مئی کے اسلام آ باد دھرنے میں بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی جس سے ان کے ورکرز کا مورال بھی گراتھا ۔اب پا نچ ماہ کے بعد انہوں نے دوبارہ یہ رسک لیا ہے۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ حکومتوں کے خلاف وہی تحریکیں کا میاب ہوئیں جن کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی بلکہ یہ تحریکیں چلوائی ہی تب جاتی رہیں جب حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ میں لڑائی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جاتی تھی۔ اس بار صورتحال بالکل الٹ ہے کیونکہ عمران خان کا بیانیہ ہی انٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیچ پر ہیں۔ عمران خان ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ رہے ہیں ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کو سپورٹ کیا۔ 

مسلم لیگ ن کے خلاف2014 میں اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر دھرنا دیا۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان کو کا میاب کرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے پری پول انجینئرنگ بھی کی اور بعد ازاں جتنا سپورٹ عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ نے کیا کبھی کسی کو سہولت میسر نہیں آئی۔اپنی افتاد طبع کی وجہ سے ان کے تعلقات بالآخر اسٹییبلشمنٹ سے بگڑ گئے ۔انہیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن یہ بھی حقیقیت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کواب جس طرح وہ للکار رہے ہیں اور جس طرح سوشل میڈیا پر ان کی پارٹی نے انٹی اسٹیبلشمنٹ منظم مہم چلائی ہے اس کی ملکی سیا سی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

ماضی میں نواز شریف سمیت کئی سیا ستدانوں نے اسٹیبلشمنٹ پر انفرادی تنقید کی مگر ریڈ لائن کراس نہیں کی۔ عمران خان نے جس طرح استعاروں کی مدد سےجانور ‘ ہینڈلرز‘ نیوٹرل‘ میر جعفر اور میر صا دق جیسے القابات سے نوازاوہ بہر حال ایک انتہائی قدم ہے۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کے ذ ریعے انٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنایا جو گلی گلی پھیل گیا ہے جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ یہ بات تو تسلیم کرنی پڑے گی کہ عمران خان کے پاس سوشل میڈیا کی جوٹیم ہے وہ سب پارٹیوں سے موثر اور منظم ہے۔ 

اس کا دائرہ اثر بہت وسیع ہے۔ انہوں نے امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ بھی ڈپلومیٹک سائفر کے ذ ریعے کامیابی سےبنایا مگر یہ بیانیہ ان کی آڈیو لیکس آنے اور ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پر یس کانفرنس سے دم توڑ گیا۔اب انہوں نے ارشد شریف بیانیہ بنا یا ہے جس کا ہدف اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن اس نے ان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچادی ہے۔

شہباز گل اور اعظم سواتی کیس میں بھی عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنایا۔ جس سے اب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی اوپن ہوگئی ہے۔ دونوں آمنے سامنے آگئے ہیں اور حکومت پیچھے رہ گئی ہے بلکہ حکمران اتحاد بغلیں بجا ر ہا ہے کہ عمران خان کا پالا بڑے پہلوان سے پڑا ہے جو ا ن کے تمام کس بل نکال دے گا۔ عمران خان کو زعم یہ ہے کہ اب وہ مقبول عوامی لیڈر بن چکے ہیں ۔ان کا سب سے بڑا مسلہ ہی یہ ہے کہ ان میں تکبر اور انا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ بلا کے ضدی اور اڑیل ہیں۔ اب بھی انہوں نے سینگ اڑالیا ہے لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی صفوں میں بہت سے لوگ ہیں جو پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں اور انہیں جب دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کیلئے کہا جا ئے گا تو وہ عمران خان کو چھوڑ جائیں گے۔

عمران خان دراصل سیا سی اور جمہوری مزاج ہی نہیں رکھتے۔وہ ذہنی طور پر ایک ڈکٹیٹر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد پونے چار سال اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی نہ صرف کوشش نہیں کی بلکہ انہیں بد ترین انتقام کا نشانہ بنایا۔ یہی حرکت انہوں نے میڈیا کے ساتھ بھی کی۔ ان کی برداشت کا عالم یہ ہے کہ جب آئینی طریقے سے 10اپریل کو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو انہوں نے اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اپنے ڈپٹی اسپیکر اور صدر کے ذ ریعے اسمبلی کی تحلیل کا انتہائی قدم بھی اٹھایا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ کا جو مزہ آیا ہے اب وہ اپوزیشن بنچوں پر ایک دن بھی بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

جب وہ وزیر اعظم تھے تو اپو زیشن کے مطالبہ پران کا موقف تھا کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور اسمبلی آئینی مدت پانچ سال پوری کرے گی۔تضاد یہ ہے کہ اب عمران خان کہتے ہیں کہ ملکی مسائل کا واحد حل فوری الیکشن کا انعقاد ہے۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور اسمبلی آئینی مدت پوری کرےگی۔عمران خان در پردہ مذاکرات کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت فوری یا کم از کم اپریل میں الیکشن کیلئے مان جا ئے۔ 

موجودہ حکو مت ہر گز جلد الیکشن کا مطالبہ نہیں مانے گی کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے حکومت غیر مقبول ہوچکی ہے۔ ضمنی الیکشن کے نتائج سے واضح ہے کہ فوری الیکشن کا نتیجہ عمران خان کے حق میں جا ئے گا۔ عمران خان کی کا میابی کے راستے بند کرنا اب صرف حکومت کی خواہش نہیں بلکہ یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ خواہش بن گئی ہے۔ عمران خان اب اپنے سیاسی کیریئر کے فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر وہ بھر پور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرسکے تو ان کی سیا ست کا انٹی کلائمیکس شروع ہو جا ئےگا۔انہوں نے پہلے چار نومبر کو اسلام آ باد میں پہنچنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب 10نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کی بات کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے سپریم کورٹ کی پابندی کی وجہ سے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم پشاور موڑ پر سری نگر ہائی وے پر دھرنا دیں گے لیکن یہ محض چال ہے۔ اگر وہ عوام کا سمندر نکالنے میں کا میاب ہوگئے تو ان کا رخ ریڈ زون ہو گا اور اگر معمول کی تعداد ہوئی تو وہ تقریر کرکے بنی گالہ چلے جا ئیں گے۔ توشہ خانہ کیس میں نااہلی نے ان کی پار لیمانی سیا ست کا دروازہ فی الحال بند کردیا ہے۔ان کے صادق اور امین کے تشخص کو بھی دھچکہ لگا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس کو ایف آئی اے تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ ارشد شریف کیس میں بھی ان کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ 

اپنی پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا بھی ان کیلئے ایک چیلنج ہے۔ عمران خان ایک مشکل سیا سی امتحان سے گز ر رہے ہیں۔ آنے والا وقت یہ طے کرے گا کہ وہ ایک ناکام سیا ستدان ہیں یا تاریخ کا دھارا بدلنے والے ہیرو۔ یہ سیا سی جواعمران خان کو ہیرو بھی بنا سکتا ہے اور زیرو بھی۔وہ کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے ہیں۔ ان کا چھکا بھی لگ سکتا ہے اور وہ کیچ آئوٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ اب یا کبھی نہیں میں یہی ہوتا ہے۔ کپتان اب کشتیاں جلا چکا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی فائر فائٹنگ کر رہے ہیں دیکھیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ عمران خان اب اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل بھروسہ نہیں رہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید