• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانس جینڈر ایکٹ (اسلامی تعلیمات کے تناظر میں)

مولانا کامران اجمل

(گزشتہ سے پیوستہ)

مملکت ِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں منظور شدہ ٹرانس جینڈرایکٹ میں جو چیزیں بنیادی معلوم ہوتی ہیں ،وہ درج ذیل ہیں ،ملاحظہ فرمائیں :

۱۔بل کا مقصد :۔اس ایکٹ سے جو چیز معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ملک میں تمام لوگ یکساں برابری کے حق دار اور مستحق ہیں ، جس میں خواجہ سرا بھی شامل ہیں ، اور اس بل کے ذریعے خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی ،زیادتی اور بدتمیزی کی روک تھام ہوسکے ، تاکہ انہیں مملکت خداداد پاکستان میں مکمل تحفظ حاصل ہو ،کیونکہ خود جو اس ایکٹ کا عنوان رکھا گیا ہے ،وہ یہی ہے کہ ’’یہ بل ٹرانس جینڈر افراد کے تحفظ ، ان کے حقوق وغیرہ کے لیے بنایا گیا ہے ‘‘، اور اس بل کی تاریخ اور وجہ جو ذکر کی گئی ،وہ یہی ذکر کی گئی ہے کہ ’’ ۲۰۰۹ میں پنڈی میں خواجہ سراؤں کے ساتھ پولیس کی طرف سے ہونے والی بے جا سختی کی وجہ سے پہلی مرتبہ یہ بل زیر بحث آیا تھا ، اور بعد میں اس پر مستقل کام کیا گیا جو ۲۰۱۸ میں قومی اسمبلی سے پاس ہوا ۔

۲۔ بل کا مصداق :۔اس کا مصداق جو ایکٹ سے معلوم ہوتا ہے، وہ تمام افراد ہیں جو جنس کو تبدیل کروا دیں یا تبدیل کروانے کے خواہش مند سمجھے جاتے ہوں ، چاہے وہ حقیقۃ ً خواجہ سرا ہوں یا نہ ہوں ۔

۳۔بل کی بنیاد :۔بل کی بنیاد جو ہماری سمجھ میں آئی، وہ انسانی احساسات ہیں ، گویا اس بل میں اصل احساسات کو قرار دیا گیا ہے کہ ہر آدمی اپنے احساسات کے معاملے میں آزاد ہے ۔ اگر اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مرد ہے تو اپنے آپ کو مرد قرار دلوا سکتا ہے ، اور اگر عورتوں والے احساسات رکھتا ہے تو عورتوں والا شناختی کارڈ بنوا سکتا ہے ، اور اگر خواجہ سرا سمجھتا ہے تو خواجہ سراؤں والی شناخت قائم کروا سکتا ہے ، اسے اس معاملے میں مکمل آزادی دی گئی ہے ، اس میں اس کا اپنا اختیار ہے، اس کے احساسات کے معاملے میں کوئی اس پر روک ٹوک نہیں کرسکتا ۔

بل میں موجود مزید خرابیاں بھی ہیں ،لیکن بنیادی طور پر اگر ان خرابیوں ہی کو شرعی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ بل درحقیقت خواجہ سراؤں کے فائدے سے زیادہ پاکستان میں برائیوں کے فروغ کا سبب ہے ، اس کی وجہ سے ایل جی بی ٹی جیسے ادارے پاکستان میں خود کو مضبوط کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں ۔ 

اس لیے اثر ورسوخ والے حضرات کو اعتماد میں لے کر شرعی اور اخلاقی خرابیوں کے باوجود اس بل کو منظور کروایا گیا اور اسے مملکت خداداد پاکستان کے قانون کی مخالفت کے باوجود ملک میں نافذ العمل قرار دیا گیا ، اور صرف اسی پر بس نہیں کہ ملک میں اسے نافذ العمل قرار دے دیا گیا ہو اور اس پر اکتفا کرلی گئی ہو ، بلکہ ۲۰۱۸ ءسے تاحال اس بل کی بنیاد پر ۲۸ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اپنے جنس کی تبدیلی کی درخواست دی ہے ، جس کی تفصیل سے اندازہ ہوگا کہ اس بل کے ذریعے خواجہ سرا ؤں کے نام پردیگر لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

جس کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۰۱۸ سے اب تک جن ۲۸۷۲۳ افراد نے اپنی جنس کی تبدیلی کی درخواستیں دی ہیں ،ان میں سے زیادہ تعدا د مردوں کی ہے، یعنی کل ۱۶۵۳۰ مرد تھے، جنہوں نے اپنی جنس کی تبدیلی کی درخواست جمع کروائی ہے ۔ ۱۲۱۵۴ عورتیں اور بقیہ چند رہ جانے والے صرف ۳۹ خواجہ سرا ہیں، جن میں سے ۹ نے خود کو غلطی سے مردوں کی لسٹ میں لکھے جانے کی درخواست کی ہے، ۲۱ نے یہ درخواست کی ہے کہ ہمیں مرد کہا جائے اور ۹ نے خود کو عورت کہلوانے کی درخواست جمع کروائی ہے ،اس سے اندازہ لگائیں کہ اس میں سدومیت کا تناسب کیا ہے کہ ۲۸ ہزار میں سے ۱۶ ہزار فقط اسی سدومیت کے شوقین مرد ہیں۔

اس بل میں جو بنیادی طور پر نقصان ہے ، وہ اس بات کا ہے کہ اس میں انسانی احساسات کو اصل قرار دے کر فیصلہ کیا گیا ، اور نظام خداوندی کو یکسر نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ جس نے دنیا کے نظام کو بنایا، وہی اس کے اچھے برے سے واقف ہے، اس طرح کی واقفیت کسی اور کو حاصل نہیں ہے ، دنیا میں کیا چیزیں مفید ہیں اور کیا چیزیں مضر ہیں ، اس سے اللہ تبارک وتعالیٰ جس طرح واقف ہے، شاید ہی کوئی اور اس طرح جانتا یا واقفیت رکھتا ہو،کیونکہ ہر بنانے والے کو اپنی پروڈکٹ کے بارے میں جتنی معلومات ہوتی ہیں اتنی کسی اور کو نہیں ہوا کرتیں ، اللہ خوب جانتا ہے، کسے انسان بنانا ہے ،کسے جانور ، کسے درخت بنانا ہے اور کسے پتھر ، کسے مرد بنانا ہے کسے عورت ؟

غرض اللہ تعالیٰ اپنی ہر تخلیق سے واقف اور انہیں کس چیز کی اور کس طرح ضرورت ہے، اس سے خوب واقف ہے ، اب اگر کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق میں دخل اندازی کرے یا اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرے تو وہ یقیناً اللہ کے نظام میں مداخلت کا مرتکب ہوگا جو سراسر غلط اور اللہ کے ہاں قابل گرفت عمل ہے ، اور اگر یہ عمل صرف محض اپنے دلی خیالات کی وجہ سے کیا جارہا ہو ، کسی بھی غلط خیال کے آنے سے یہ سمجھا جائے کہ یہ تخلیق خداوندی میں مداخلت کا جواز فراہم کرتا ہے ،یہ بہت ہی زیادہ نامعقول قسم کی بات ہے ، کیونکہ ہر خیال قابل عمل نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے لیے شریعت نے کوئی طور طریقہ مقرر کیا ہے کہ کس خیال پر عمل کرنا ہے اور کس خیال کو جھڑکنا ہے ، ایسا نہیں کہ کسی بھی عمل کو شریعت نے مہمل چھوڑا ہو ، اور اس کے لیے کوئی لائحہ عمل نہ طے کیا ہوا ، بلکہ ہر پل اور ہر آن جس چیز کی انسان کو ضرورت ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے یا صراحت کے ساتھ یا پھر کسی قاعدےکے تحت بیان فرمادیا ہے۔

دل ودماغ میں کسی غلط خیال کا آنا یہ قابل گرفت جرم نہیں ہے ،لیکن اس کے اظہار سے شریعت مطہرہ نے منع ضرور فرمایا ہے، اور اس کے ختم کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا ، چاہے ان خیالات کا تعلق عقائد سے ہو یا کسی غلط خیال سے متعلق ہو ، اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی خیال وہ نامناسب سمجھتے تو اس کے اظہار کو بہت برا گردانتے ، اس کے بیان کرنے سے زیادہ جل کر راکھ ہو جانے کو ترجیح دیتے تھے ، مثلا ً : ایک صحابیؓ آئے اور عرض کیا یارسول اللہﷺ ! میرے دل میں ایک خیال آرہا ہے اور میں جل کر کوئلہ ہوجاؤں ،یہ زیادہ بہتر ہے میرے نزدیک اس بات سے کہ میں اس کا اظہار کروں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم اس قسم کا کوئی وسوسہ پاؤ تو یہ کہو کہ اے اللہ، تیرا شکر ہے کہ آپ نے اس شیطان کا معاملہ صرف وسوسے کی حد تک رکھا ہے ‘‘۔ (سنن ابو داؤد)

اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ہر وہ خیال جو دل میں آئے اس کا اظہار کرنے کی شریعت مطہرہ میں اجازت نہیں ہے ،بلکہ اس کے دور کرنے کے لیے شریعت نے تدبیریں بتائی ہیں ، مثلا ً : غصہ آنے کی صورت میں فرمایا کہ وضو کرلے ، یا کھڑا ہو تو بیٹھ جائے وغیرہ ۔ (سنن ابوداؤد :۵؍۲۶۹)خواب میں ڈر جائے تو اسے کسی کے سامنے بیان کرنے کے بجائے فرمایا کہ بائیں طرف تھوک دے اور اعوذ باللہ پڑھ کر کروٹ بدل دے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ دل میں غلط خیال آنا کسی مسئلے کو بگاڑنے یا کسی ناجائز کام کے جواز کا سبب نہیں بن سکتا ، اگر کسی لڑکے کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں لڑکی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اسے اس کی اجازت دی جائے کہ وہ کسی کے سامنے اس خیال کا اظہار کرے ، بلکہ اسے یہ فرمایا کہ وہ اس وسوسے کے علاج کے لیے دعا کرے اور اگر اس کا علاج ہو تو اس کا علاج کرے۔

غیر فطری خیالات چاہے وہ عقل سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی قسم کے ہوں، اسے روکنا اوراسے قابو کرنا شریعت مطہرہ کا تقاضا ہے ، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو باقاعدہ فرما دیا ہے کہ جہنم کو ایسی چیزوں سے ڈھانک دیا گیا ہے ،جو دل کو بھاتی ہیں (یعنی جہنم جن چیزوں کےنیچے چھپی ہے ان کے کرنے کا دل چاہتا ہے ) اور جنت کو ان کاموں کے ذریعے ڈھانپ دیا گیا ہے جو دل کو اچھی نہیں لگتیں ، معلوم ہوا کہ نفس کی پیروی کرنا جہنم میں داخلے کا باعث بن سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ جس نے پوری کائنات کو بنایا جو اس کے نفع نقصان سے بخوبی واقف ہے،اگر وہ کسی بات کو ذکر فرمائےگا ،تو یقیناً وہ سب سے اعلیٰ وا رفع ہوگی ، اور اللہ تعالیٰ نے شہوت کے پیچھے چلنے سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جا بجا خواہش نفسانی کی پیروی کرنے والوں کی برائی بیان کرتے اور ان کے بدترین انجام کا تذکرہ فرماتے ہیں ، اور اپنی خواہش کی پیروی نہ کرنے والوں کی فضیلت ذکر فرماتے ہیں ، مثلا ایک جگہ ارشاد فرمایا :’’جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی ، تو جہنم اس کا ٹھکانہ ہے ، اور جواپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشات (کی پیروی )سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔ (سورۂ نازعات : ۴۰)ایک جگہ ذکر فرمایا : ’’ اور اپنی خواہشات کی پیروی مت کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کردے گا ، بے شک ،جو لوگ اللہ کے راستے سے گمراہ ہوئے ان کے لیے حساب کے دن کو بھلا دینے کی وجہ سے سخت عذاب ہوگا‘‘۔(سورۂ ص : ۲۶)

ایک جگہ ارشاد فرمایا : ’’ اگر یہ لوگ آپ کی بات نہ مانیں تو یاد رکھیے کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں ، اوراس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اپنی خواہش کی پیروی کرے ‘‘۔(سورۂ قصص : ۵۰)ارشادِ ربّانی ہے’’ اور ان گمراہ لوگوںکی خواہش کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ ہیں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کرچکے ہیں اور خود بھی سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں ‘‘۔ (سورۂ مائدہ:۷۷ )ایک جگہ ارشاد ہے :’’ آپ ان لوگوں کو اس شخص کا قصہ سنائیں جسے ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں ، وہ اس سے نکل گیا اور شیطان کی پیروی کی، اس لیے گمراہوں میں سے ہوگیا ، ہم چاہتے تو اسے ان آیات کی برکت سے بلندی عطا کرتے ،لیکن وہ خود زمین کی طرف مائل ہوا ، تواس کی مثال کتے کی سی ہے ،اگر اس پر کوئی بوجھ ڈالیں تو بھی زبان نکالے گا اور اگر اسے چھوڑ دیں تو بھی وہ ہانپتا رہے گا ، یہ مثال ہر اس قوم کی ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ، آپ ان کے سامنے یہ قصے بیان کریں ،تاکہ یہ اس میں غور وفکر کریں ‘‘۔ (سورۂ اعراف : ۱۷۶)

اس قسم کی کئی آیات ہیں ،جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے خواہش نفس کی پیروی کو گمراہی ، ظلم اور ہلاکت کے مترادف قرار دیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ یہ لوگ نادان ہیں ،جانتے ہیں اور ظاہر سی بات جس نے کوئی چیز بنائی ہو تو وہ اس کے بارے میں جتنا جانتے ہوں گے ،اتنا کوئی اور نہیں جانے گا ، اور یہاں دنیا کے بنانے والے اللہ تعالیٰ ہیں اور وہ خواہش نفس کی پیروی کو ہلاکت قرار دے رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ہلاکت اور بربادی عام چیزوں سے زیادہ ہوگی، اسی بنیاد پر اللہ نے سختی کا معاملہ فرمایا ہے ۔

جس طرح قرآن کریم میں خواہش نفس کی پیروی کی مذمت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بڑی صراحت کے ساتھ اس کا ذکر موجود ہے۔ جا بجا رسول اللہ ﷺ نے اپنے نفس کی پیروی سے منع فرمایا ہے :حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ منقول ہے کہ آگ (جہنم کو پسندیدہ چیزوں کے ذریعے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناپسندیدہ چیزوں کے ذریعے ڈھانک دیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری )ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتارہے اور کم عقل اور عاجز وہ شخص ہے کہ جو اپنے نفس کی پیروی کرے اور اللہ سےامیدیں باندھے رکھے ۔( سنن ترمذی )

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خواہش نفس کی پیروی کرنا ، پھر خصوصاً ان لوگوں کے خیالات کی پیروی کرنا جو گمراہی پر ہوں ۔اسلام میں بہت ہی زیادہ برا اور قبیح ترین عمل ہے ۔اگر محض خواہش نفس، دل میں پائے جانے والے احساسات کو ہی بنیاد بنا لیا جائے تو نہ کوئی چیز اپنی اصل صورت میں برقرار رہ سکے گی، نہ ہی انسانیت برقرار رہے گی ، اس لیے دل میں آنے والی ہر بات پر عمل پیرا ہونا قطعا ًدرست نہیں ہے ، بلکہ قرآن و سنت اور دین مبین کی اتباع میں ہی حقیقی کامیابی اور آخرت میں نجات کا راز پوشیدہ ہے۔

اقراء سے مزید