• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرا شوہر ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے ، کبھی کبھی اُس پر دورہ پڑتا ہے، جس کے بعد ایک ہفتہ مدہوش یعنی بے ہوش رہتاہے ، 6جولائی 2022ء کو ایسی ہی حالت ہوئی ، ہسپتال لے جایاگیا ، دیکھ بھال کے لیے میں اور میرا بیٹا ہسپتال میں رہے ۔کچھ دیر کے لیے شوہر کا ایک رشتے دار ہسپتال آتااور یہ کہتاہے کہ یعقوب(یعنی میرے شوہر) نے اپنی منکوحہ کو(یعنی مجھے) طلاق دے دی ہے ،میرا شوہر اس سے صاف انکاری ہے ، بیٹا بھی کہتاہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ، اس حوالے سےشرعی حکم کیاہے ؟(ایک دینی بہن،میرپور)

جواب: مفتی غیب کا علم نہیں جانتا، بلکہ فریقین کے بیان کردہ احوال کی روشنی میں شرعی حکم بیان کرنا مفتی کا کام ہے ۔اُن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اُن کے اور رب کے درمیان کا معاملہ ہے، چنانچہ اگر کوئی فریق غلط بیانی سے کام لے رہا ہے ،تو اُس کا وبال خود اُس پر ہے، فتوے اور قضا میں یہی فرق ہے کہ فتوے میں حقیقتِ نفس الامری کا تعین کیے بغیر حسنِ ظن کی بنیاد پر دریافت طلب صورت ِ مسئولہ کا شرعی حکم بیان کیا جاتا ہے ، جبکہ قاضی کا کام دلائل وشواہد کی روشنی میں حقیقت ِ نفس الامری یعنی امرِ واقعہ کا تعین کرکے اس کا حکم بیان کیاجاتا ہے اور اس کا فیصلہ قانوناً نافذ بھی ہوتا ہے ۔قضاء ًیعنی دنیوی اَحکام کے اعتبار سے ثبوتِ طلاق کے دوطریقے ہیں: ایک یہ کہ شوہرخود طلاق کا اقرار کرے، دوسرا یہ کہ طلاق پر دو عادل گواہ موجود ہوں۔

اس رشتے دار کا دعویٰ ہے کہ یعقوب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، بحیثیت مُدّعی اُس پر ثبوت کے لیے دو عادل گواہوں کا پیش کرنا لازم ہے اور اگر وہ خود گواہی دیتا ہے ،تو گواہی کا نصاب مکمل نہیں ہے ۔تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’اور (گواہی کا) نصاب (حدود اور قصاص )کے سوا دیگر حقوق کے لیے جن کا تعلق مال سے ہو یا اُن کے علاوہ مثلاً نکاح ،طلاق، وکالت ، وصیت اور بچے کی ولادت کی گواہی ،خواہ یہ گواہی وراثت کے لیے ہو ،(ان تمام صورتوں میں گواہی کا نصاب یہ ہے کہ) دو مردہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد5، ص:465 )‘‘۔

بیان کردہ مسئلے میں گواہی کا معیار مکمل نہیں ،محض ایک فرد کے کہنے پر طلاق کا حکم نہیں دیا جاسکتا ۔آپ نے سوال میں درج کیاہے کہ یعقوب ذہنی مریض ہے ، اگر صورت مند رجہ بالا صحیح اور واقعی ہے اور سا ئل پر بوقت طلاق دورہ ( Panic Attack)پڑا تھا اور اس نے اس حالت میں اپنی بیو ی کو طلا ق دی تو وہ طلا ق شرعاً لغو وبا طل قر ار دی جا ئے گی۔ 

علامہ نظام الد ینؒ لکھتے ہیں :ترجمہ :’’ اور بچے (نا با لغ)کی طلا ق واقع نہیں ہو گی، اگر چہ وہ عقل رکھتا ہو اور مجنوں کی اور سو ئے ہوئے شخص کی، ذات الجنب (بر سام) کے مر یض کی طلا ق ،مُغمی علیہ (بیما ر جس پر بے ہوشی طا ری ہو) اور مدہو ش کی طلا ق واقع نہیں ہو گی ،فتح القدیر میں اسی طر ح ہے ،(فتاویٰ عالمگیر ی، جلد 1، ص: 353 )‘‘۔ یہ جو اب صحت سوال و بیا ن مذکو ر پر مبنی ہے اور اگر سوال وبیا ن صحیح نہ ہوں تو جواب بھی یہ نہیں ہو گا ۔مزید یہ کہ سوال میں طلاق کے الفاظ بھی مذکور نہیں ہیں کہ اگر بقائمی ِ ہوش وحواس کہے ہیں تو اُن کا حکم بیان کیا جائے ۔