فلم ’’رواج‘‘ کی کہانی ہمارے سماج کی ایک تصویر ہے، جسے فرسودہ رواجوں کے پھیکے رنگوں نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے، جو معاشرے کنیوس پر بنی ہوئی ایک زخم کی صورت رکھتی ہے۔ زخم کا تعلق سننے سے نہیں دیکھنے سے ہوتا ہے۔ بچپن میں کی گئیں خاندانی روایتوں کی فرسودہ شادیاں اکثر جوان ہونے والے بچوں میں تباہی و بربادی لے کر آتی ہیں۔ یہی وہ زخم ہے، جس کا علاج اس کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا۔
ڈی ایم فلمز کی اس فلم میں ماضی کے سپر اسٹار محمد علی اور زیبا نے مرکزی کردار کیے تھے، اس سے قبل ان کی ایک فلم ’’ہیڈ کانسٹیبل‘‘ ریلز ہو چکی تھی۔ رواج ان کی پہلی کام یاب فلم تھی، جس کے فلم ساز و ہدایت کار دلجیت مرزا تھے، جو ایک بہترین مزاحیہ اداکار بھی تھے۔ اسکرین پلے اور کہانی بھی ان کی لکھی ہوئی تھی۔ فلم کے شان دار اصلاحی مکالمے ریاض شاہد نے تحریرکیے تھے۔
اس فلم میں اداکار محمد علی نے ’’ڈاکٹر ریاض ‘‘ کا کردار عمدہ انداز میں ادا کیا تھا۔ اداکارہ زیبا نے ’’رضیہ‘‘ نامی ایک ایسی لڑکی کا رول کیا ، جس کی شادی بچپن میں اس کے چچا زاد سے کر دی جاتی ہے۔ 47کے فسادات میں اس کے چچا کا خاندان ایک حادثے کا شکار ہو کر بلوائیوں کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتا ہے اور کچھ لوگ بچھڑ جاتے ہیں، جس میں اس کا دولہا اسلم پرویز بھی شامل ہوتا ہے۔ رضیہ اپنے ماں باپ کے ساتھ پاکستان بننے کا بعد لاہور آ جاتی ہے۔ جب وہ جوان ہو جاتی ہے، تو اس کے ماں باپ اس کے دولہا کے زندہ ہونے کی امید سے مایوس ہو کر اس کی شادی ڈاکٹر ریاض (محمد علی) سے کر دیتے ہیں۔
رضیہ کی زندگی میں ایک روز اس کا بچپن کا خاوند زندہ سلامت سامنے آ جاتا ہے، جس سے رضیہ اور اس کے والدین کی زندگی اچانک ایک الجھن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اداکار اسلم پرویز اس کہانی کا تیسرا ہم کردار تھا، جس نے زیبا کے بچپن کے دولہا غفور کا کردار نہایت عمدگی سے ادا کیا تھا۔ یہ ایک سنگدل ، شرابی، جواری قسم کے شخص کا تھا، جو اپنی بیوی اور اس کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے پیسہ بٹورتا ہے۔ دولت اور عورت، غفور کی کمزوری تھی۔ اداکارہ دیبا نے ’’پگلی‘‘ کے مختصر کردار میں بہترین اداکاری کی۔ اداکار جعفری نے محمد علی کے دوست کے رول نبھایا۔
اداکار دلجیت مرزا نے چاچا کا رول اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں ادا کیا۔ اداکارہ رقاصہ فریدہ نے کلب ڈانسر کے طور پرتین دل کش رقص فلم بند کروائے۔ معروف لیجنڈ اداکار قوی خان کی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں انہوں نے اسلم کے شرابی دوست کا کردار کیا تھا۔ کلب ڈانسر فریدہ کے چکر میں اسلم پرویز اس کا قتل کر دیتا ہے۔ سینئر اداکار یاسمین بیگم نے اداکارہ زیبا کی والدہ اور آغا طالش کی بیگم کا کردار عمدگی سے ادا کیا۔ ایک مظلوم ساس جو اپنے آوارہ اور ظالم داماد کے مطالبات پُورے کرتے کرتے لب سڑک آجاتی ہے۔ آغا طالش اس فلم میں ایک ایسے مجبور باپ کے روپ میں نظر آئے، جس نے اپنی بیٹی کے سکھ کے سپنے دیکھے تھے۔
یہ ریلوے کے ایک ملازم کا کردار تھا، جو ہر روز اسٹیشن پر آنے جانے والے لوگوں میں اپنے بچھڑے ہوئے داماد کو تلاش کرتا ہے۔ جب اس کے ملنے کی امید ختم ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی بیٹی کی شادی ڈاکٹر ریاض سے کر دیتا ہے۔ پھر ایک روز اچانک ان کا داماد زندہ سلامت سامنے آتا ہے۔ تو اسٹیشن ماسٹر احمد اور اس کی بیگم پر ایک قیامت صغریٰ طاری ہو جاتی ہے۔ دونوں میاں بیوی اپنے داماد کی زبان کو بند رکھنےکے لیے اس کے ناجائز مطالبات پُورے کرتے کرتے انتہائی فاقوں پر آجاتے ہیں۔ دوسری طرف غفور (اسلم پرویز) اپنی بیوی کو بھی بلیک میل کرتا ہے۔
پھر ایک روز غفور، ڈاکٹر ریاض (محمد علی) کو اپنی بیوی کے بارے میں سب کچھ بتا دیتا ہے، جسے سُن کر ڈاکٹر ریاض گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ رضیہ اپنی بے گناہی کا یقین دلاتی ہے ، مگر ریاض نہیں مانتا۔ ایک روز رضیہ کا والد غفور کے مطالبات سے تنگ آکر کلب جا کر اس کے سرپر شراب کی خالی بوتلوں سے حملہ کرتا ہے۔ غفور زخمی ہو جاتا ہے۔ پولیس اسٹیشن ماسٹر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیتی ہے۔ ایک دن رضیہ اور اس کی ماں جو اب بے گھر ہو چکی تھیں، ایک بزرگ کا پاس پناہ لیتی ہیں۔ وہ بابا، ڈاکٹر ریاض کا ملازم ہوتا ہے۔ اس کے پاس رضیہ اپنے بچے کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ غفور رضیہ کا پتہ لگا کر وہاں پہنچ جاتا ہے۔
وہ اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہتا ہے اور دھمکی دے کر چلا جاتا ہے۔ کلب میں غفور کے ہاتھوں اپنے دوست کا قتل ہو جاتا ہے، جو کلب ڈانسر فریدہ سے محبت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ رضیہ کا بچہ ایک روز باغ میں کھیل رہا ہوتا ہے۔ ایک سانپ!! بچے کی جانب بڑھتا ہے، تو وہ اسے بچا لیتی ہے،لیکن سانپ رضیہ کو ڈس لیتا ہے۔ چاچا اسے ہسپتال لے جاتا ہے۔ جہاں رضیہ کا شوہر ریاض اس کا علاج کرتا ہے۔ ریاض کو رضیہ اور غفور کی حقیقی کہانی کا پتہ چلتا ہے۔ اس کی غلط فہمی دور ہو جاتی ہے۔ وہ رضیہ کو اپنے گھر لاتا ہے۔ غفور کو قدرتی طور پر سزا ملتی ہے۔
وہ لقوے کے مرض میں اپاہچ ہو جاتا ہے، تب اسے اپنے گناہوں کا احساس ہوتا ہے، اس نے رضیہ اور اس کے والدین کے ساتھ بہت زیادتیاں کیں ہیں ۔ وہ ڈاکٹر ریاض کے پاس آکر اعتراف کرتا ہے کہ میں نے جعلی نکاح نامہ بنایا تھا، جس کے ذریعے میں اسے اور اس کے گھر والوں کو بلیک میل کرتا رہا۔ ہمارا تو نکاح نہیں ہوا تھا ، صرف بچپن کم سنی میں ہم دونوں کو دولہا دُلہن بنا کر ایک فرسودہ رواج کے تحت میاں بیوی بنا دیا گیا تھا۔ غفور جیل جا کر اپنے چچا احمد سے بھی معافی مانگتا ہے۔ احمد رہا ہو کر گھر آتا رضیہ ریاض اور ان کا بچہ، چاچا، بیگم احمد اور احمد سب لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور یُوں فلم کا اختتام ہو جاتا ہے۔
فلم ’’رواج‘‘ کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے، انہوں نے اس فلم کے لیے سماعتوں میں رس گھولنے والے شان دار گانے کمپوز کیے ،جن کی تفصیل کچھ یُوں ہے۔
(1) وعدہ کر کے نبھانا کہیں چھوڑ کر نہ جانا۔ (سنگر مالا) (نغمہ نگار تنویر نقوی) (فلم بندی زیبا)۔(2) دُور دُور رہ کر گزارا نہیں ہو گا۔ (سنگر مالا) (نغمہ نگار خواجہ پرویز) (فلم بندی فریدہ کلب میں)۔(3)جو ہونا تھا سو ہو ہی چکا(سنگر مالا) (نغمہ نگار قتیل شفائی) (فلم بندی دیبا)۔(4) ہاتھ ہمارا تھام لے ہمت سے کام(سنگر مالا) (نغمہ نگار خواجہ پرویز) (فلم بندی فریدہ کلب میں)۔