اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر حملہ اور صحافی ارشد شریف قتل کے حقائق جانے کیلئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو الگ الگ خط لکھ دیئے۔
خط کے متن متن میں کہا گیا ہے کہ عمران خان پر حملے کی تحقیقات کا مروجہ طریقہ نہ اپنانا بددیانتی ہے، پنجاب حکومت شواہد مٹا سکتی ہے، حملے کے بعد ملک ہیجانی کیفیت کا شکارہے، پی ٹی آئی رہنماؤں کی زہرآلود تقاریر سے شہریوں کی جان و مال کو خطرات ہیں جبکہ پنجاب اورخیبرپختونخوا حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند املاک پر حملے کر رہے ہیں
منگل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو لکھے گئے خط میں استدعا کی گئی کہ عمران خان پر فائرنگ کے واقعہ کے حقائق جاننے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنا یا جائے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے، کمیشن پانچ سوالات پر خاص طور پر غور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیاکہ کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی؟ وزیراعظم نے کہاکہ کارواں کی حفاظت کیلئے مروجہ حفاظتی اقدامات اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز لاگو کئے گئے؟ اور کیا ان پر عمل کیا گیا؟ حادثے کے اپنے حقائق کیا ہیں؟ ۔
وزیراعظم نے کہاکہ ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد، انکے زخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟
وزیر اعظم نے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟ وزیراعظم نے اپنے خط میں کہاکہ وقوع کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے شہادتیں جمع کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟
اگر ایسا نہیں ہوا تو ضابطے کی کیا خامیاں اور کمزوریاں سامنے آئیں؟ ،ضابطے کی ان کوتاہیوں کا ذمہ دار کن انتظامی حکام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کو ٹھہرایا گیا؟
وزیر اعظم نے اپنے خط میں کہاکہ کیا وقوعہ کی تحقیقات کے عمل میں دانستہ رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں ،اگر رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں تو یہ عناصر کون ہیں؟ اور ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ،کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جسکا مقصد واقعی پی ٹی آئی چیئرمین کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟ وزیراعظم نے کہاکہ ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کے بھی ذمہ دار عناصر کون ہیں ؟
وزیر اعظم نے کہاکہ قانون کی حکمرانی کے مفاد میں اس درخواست پر عمل پر وفاقی حکومت مشکور ہوگی،اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کریگی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ وزیر آباد میں عمران خان کے جلوس میں فائرنگ کے افسوسناک واقعے سے ملک ہیجانی کیفیت اور امن وامان کے بحران کا شکار ہے ۔
خط میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی لیڈرز زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں، پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کا جا ومال کو خطرات ہیں ۔ خط میں کہاگیاکہ پاکستان اور عالمی میڈیا میں اسکی کوریج ہو رہی ہے:،72 گھنٹے گزرنے پر ایف آئی آر نہ ہوئی۔وزیراعظم نے خط میں کہاکہ پی ٹی آئی کے ماتحت پنجاب حکومت نے بدقسمتی سے تحقیقات میں ان قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جن پر ایسے واقعات میں عمل کیا جاتا ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ افسوسناک امر ہے کہ کرائم سین (جائے وقوعہ)کو محفوظ نہیں کیاگیا ،جس کنٹینر پر یہ واقع ہوا، لوگ زخمی ہوئے، اسے بھی فورنزک کیلئے تحویل میں نہیں لیاگیا،وزیر اعظم نے کہاکہ پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی،عمران خان کو ایک پرائیویٹ ہسپتال لیجایا گیا جو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا پروسیجر نہیں،وقوعہ کے بعد جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے شک ہے کہ پنجاب حکومت اور اس کے ذمہ دار شہادتوں سے گڑبڑ کر سکتے ہیں۔ خط میں کہاگیاکہ تحقیقات اور شہادتیں جمع کرنے کے مروجہ طریقہ کار نہ اپنانا بدنیتی کا مظاہرہ ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ وفاقی حکومت اس بارے میں پہلے ہی خط لکھ کر صوبائی انتظامیہ کو اپنے سنگین تحفظات سے اگاہ کر چکی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں شرپسند نجی و سرکاری عمارتوں، گورنر ہاؤس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں،ریاستی اداروں خاص طور پر مسلح افواج کے خلاف کردار کشی اور بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہاکہ مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، درست حقائق کے تعین اور عوامی اعتماد کی خاطر وفاقی حکومت کی رائے میں سپریم کورٹ کا کمیشن بننا ضروری ہے۔
وزیر اعظم نے کہاکہ سپریم کورٹ کا کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے، اصل حقائق سامنے لائے،سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
وزیراعظم نے خط میں کہاگیاکہ موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے صحافی ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے حقائق جانے کیلئے بھی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے خط لکھ دیا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے خط میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے
کمیشن ان سوالات پر خاص طور پر غور کر سکتا ہے کہ ارشد شریف نے اگست 2022 میں بیرون ملک جانے کیلئے کیا طریقہ کار اپنایا، بیرون ملک روانگی میں کس نے سہولت کاری کی، کوئی وفاقی یا صوبائی ایجنسی، ادارہ یا انتظامیہ صحافی کو ملنے والی دھمکی سے آگاہ تھے؟۔خط میں لکھا گیا کہ اگر ارشد شریف کی جان کو خطرے کی اطلاع تھی تو اس سے بچاؤ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے؟
وہ کیا حالات اور وجوہات تھیں جس کی بنا پر وہ متحدہ عرب امارات سے کینیا گئے؟ فائرنگ کے واقعات کی اصل حقیقت کیا ہے جن میں ان کی موت ہوئی؟ کیا ان کی موت واقعی غلط شناخت کا معاملہ ہے یا پھر یہ کسی مجرمانہ کھیل کا نتیجہ ہے۔شہباز شریف نے خط میں لکھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے کمیشن کی تشکیل ضروری ہے۔