• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بااختیار میئر: ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کو اپنا دو ٹوک موقف پیش کردیا

سندھ میں عرصہ دراز سے بدامنی کا سلسلہ ڈاکوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی جانب سے جاری ہےتاہم گزشتہ ہفتے گھوٹکی کے علاقے میں مغویوں کی بازیابی کے لیے پولیس آپریشن کے دوران ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے تین پولیس افسران سمیت پانچ اہلکار شہید کردیئے، شہید ہونےو الوں میں ایک ڈی ایس پی بھی شامل ہے، واقعہ کے مطابق گھوٹکی کے علاقہ اوباڑو کے کچے کے علاقے رونتی میں اوباڑو سے ایک ہفتہ قبل اغوا ہونے والے تین مغویوں کی بازیابی کے لیے پولیس کی جانب سے رونتی کے علاقہ میں آپریشن کے لیے پولیس کیمپ قائم کیا گیا،جس کے بعد ڈاکوؤں نے مبینہ طور پر پولیس کیمپ پر حملہ کردیا، ڈاکوؤں کے حملے میں ڈی ایس پی اوباڑو، دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکار شہید ہوگئے۔ 

سندھ میں کئی بار یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوؤں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اسی لیے ان کاخاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے، اس مرتبہ بھی ایسے ہی الزامات عائد کئے گئے تاہم وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ جو ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں وہ ہتھیار یہاں سے نہیں باہر سے آرہے ہیں، یہی ٹاسک پولیس کو دیا ہے کہ اسلحے کی رسدختم کی جائے، جدید اسلحے کی خریداری کے لیے ساڑھے تین ارب رو پے کی منظوری دی ہے،وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے کہا کہ سندھ کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جس کو نوگوایریا کہاجاسکے ،گھوٹکی، کشمور اور شکارپورکے علاقے دشوار گزار علاقے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکوؤں کو کوئی سیاسی سپورٹ حاصل ہے تو آپ نام بتائیں، ڈاکوؤں کو سیاسی سپورٹ کے متعلق ایس ایس پی ڈاکٹررضوان کی رپورٹ غلط ثابت ہوئی، انہوں نے مزیدکہاکہ گھوٹکی، کشمور اور شکارپور میں اب بھی کچھ مسائل ضرور ہیں ہمارے پولیس جوانوں کے حوصلے بہت بلند ہیں، ان کے ذریعے ہی ڈاکوؤں کا خاتمہ کریں گے۔ادھر عمران خان پر حملے کے بعد ان سے اظہار یکجہتی اور تین نامزد افراد کے خلاف ایف آئی آدر درج کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ 

ادھر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد کے لیے جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے اور ساتھ ہی جماعت اسلامی کراچی کے امیرحافظ نعیم الرحمان نے انتخابات کی تاریخ دینے کےلیے الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہاہے کہ اگر سات دن میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تو جماعت اسلامی شہربھر میں دھرنے، احتجاج اور سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کرے گی، سندھ اسمبلی پر دھرنا اور ہڑتال کی کال بھی دے سکتے ہیں، چیف الیکشن کمشنر سے ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ حکومت کے ساتھ خط وکتابت کرکے وقت گزاری کرنے کی بجائے آرٹیکل 220 کا استعمال کرتے ہوئے کراچی میں فوری بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے فوج ، رینجرز اور ایف سی اہلکاروں کوطلب کرے، جبکہ سندھ ہائیکورٹ نےکراچی اور حیدرآبادمیں بلدیاتی انتخابات میں مسلسل تاخیر کے خلاف اور فوری انتخابات کے لیے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی درخواستوں پر آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجر زسے بھی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں ہوا۔

الیکشن کمیشن کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صوبائی حکومت کی رپورٹ سے آگاہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت سندھ نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کےا نعقاد کے لیے پولیس کی نفری ناکافی ہے اورسندھ کے دوسرے اضلاع سے طلب کرنا ممکن نہیں، مزید پولیس اہلکار وزارت داخلہ کی درخواست پر اسلام آباد بھیجوائے گئے ہیں۔ 

اس کے علاوہ کووڈویکسی نیشن اور انٹرنیشنل دفاعی نمائش وسیمینار میں ان کی تعیناتی بھی ضروری ہےلہٰذا کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا پرامن انعقاد ناممکن ہے، الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کی طرف سے فوری انتخابات کے انعقاد کے خط پر بھی غورکیا اور فیصلہ کیا کہ لوکل گورنمنٹ انتخابات کا کیس الیکشن کمیشن میں سماعت کے لیے 9 نومبر 2022 کو پیش ہوگا جس میں سیکریٹری داخلہ، چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ کو نوٹس کئے جائیں۔ 

اجلاس میں جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ وہ اپنا موقف پیش کرنا چاہیں تو پیش کریں اور کراچی کے اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ تمام فریقین کو سننے کے بعد کیاجاسکے۔ جبکہ سندھ حکومت نے 3 ماہ تک کراچی میں بلدیاتی الیکشن کرانے سے معذرت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے لیے لکھے گئے خط کا جواب دے دیاہے جس میں بتایاگیا کہ کم از کم 3 ماہ تک بلدیاتی الیکشن نہیں کراسکتے۔

سندھ حکومت کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث 17 ہزار اہلکار دیگر اضلاع سے نہیں آسکتے۔ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سےپی پی پی اور ایم کیو ایم میں بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے سلسلے میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اس ضمن میں ایم کیو ایم کے رہنماسابق میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ہم کراچی اور حیدرآباد سمت سندھ میں بااختیار میئرچاہتے ہیں یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم میں طے شدہ معاہدے کے مطابق ایڈمنسٹریٹر کراچی کا تقرر ایم کیو ایم کے مشورے سے کیاجارہا ہے۔ 

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ حکومت کراچی اورحیدرآباد میں بلدیاتی انتخاب کا انعقاد نہیں چاہتی اور وہ وقت گزار رہی ہے تاکہ مردم شماری، حلقہ بندی اور ووٹرزلسٹوں کی تیاری کا وقت آجائے اور بلدیاتی انتخاب عام انتخاب کے بعد تک ملتوی کرائے جاسکیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید