کراچی کے شہری اس وقت مہنگائی،بیروزگاری اور دیگرمسائل کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم کے جن سے بھی لڑ رہے ہیں،شہر کی شاید ہی کوئی گلی یا محلہ ایسا ہو گا، جہاں کے باسی آسٹریٹ کرائمز کا شکار نہ بنے ہوں۔ شہری اسٹریٹ کرائمز کے دوران نہ صرف اپنی قیمتی اشیاء سے محروم ہو رہے ہیں، بلکہ اب تک 80 سے زائد شہری اپنی جانیں بھی گنوا چکے ہیں۔ جان تو واپس آتی نہیں، لیکن لُٹنے والے شہریوں کی قیمتی اشیاء بھی انھیں نہیں مل پاتیں ، جس کے باعث وہ دہری اذیت کا شکار ہیں۔
پولیس کی جانب سے گزشتہ چند برسوں میں اسٹریٹ کرائمز سے نمٹنے کے لیے متعدد حکمت عملیاں اور منصوبے بنائے گئے،متعدد ملزمان پولیس مقابلوں میں ہلاک اور گرفتار بھی ہوئے۔ تاہم اسٹریٹ کرائم کا جن اب بھی قابو میں نہیں آرہا۔ شہر میں منشیات کی فروخت ایک بڑا مسئلہ ہے اور متعدد پولیس افسران یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اکثر اسٹریٹ کرمنل منشیات کے عادی ہیں اور اپنے نشے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کرتے ہیں۔ تاہم اس بات کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں ہے کہ جب منشیات کراچی میں تیار نہیں ہو رہی، تو دیگر صوبوں سے شہر میں اس کی ترسیل اور فروخت کیسے کی جا رہی ہے اور کون لوگ اس میں ملوث ہیں؟
پولیس کی جانب سے منشیات کے مکروہ دھندے میں ملوث ملزمان کو بھی پکڑنے کے کئی بار دعوے کیے گئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود شہر میں اب بھی ہر طرح کی منشیات باآسانی دستیاب ہے، جس سے پولیس کے علاوہ اینٹی نارکوٹکس فورس ( اے این ایف ) سمیت متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائم کراچی کا پُرانا مسئلہ ہے،اسٹریٹ کرائم کے لیے قانون میں سخت سزا ہونی چاہیے، اسٹریٹ کرائم آسان جُرم ہے،سزا نہ ہونے کی وجہ سے ملزم فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ تفتیش کو بہتر کرنے کے لیے نفری اور وسائل کی کمی ہے،کراچی میں گزشتہ سال 82 ہزار جرائم ہوئے، جب کہ لاہورمیں گزشتہ سال 2 لاکھ 3 ہزار جرائم رپورٹ ہوئے۔
آئی جی سندھ کا دعویٰ ہے کہ کراچی دیگر شہروں سے اب بھی بہتر ہے،آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ صوبے کی نفری 1 لاکھ 23 ہزار ہے، جب کہ صوبے کی نفری 1 لاکھ 70 ہزار ہونی چاہیے ،30 ہزار کی نفری کی مزید ضرورت ہے، تھانہ کلچر کو بہتر کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں، توقع ہے کہ پولیس عوام کی امید پر پورا اترے گی۔ کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں منشیات کا بڑا عمل دخل ہے،تھوڑی سی مزاحمت پرانسان کی جان لے لی جاتی ہے، منشیات کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا،انہوں نے بتایا کہ پولیسنگ میں بھی تکنیکی تبدیلی جاری رہے گی۔
کمیونٹی کے تعاون کے بغیر جُرائم کی روک تھام میں ناکامی ہوگی،کراچی پولیس چیف کے مطابق سیف سٹی پروجیکٹ پر کام چل رہا ہے اور اس کے ذریعے جرائم پر قابو پانا بہت آسان ہوجائے گا ۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک سیف سٹی پروجیکٹ مکمل نہیں ہو جاتا، ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے،اس لیے سیف سٹی پروجیکٹ جیسے پروگراموں کی ضرورت ہے،جن علاقوں میں یہ سسٹم لگا ہے، وہاں 50 فی صد کرائم کم ہوا ہے۔
دوسری جانب اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان پکڑے تو جا رہے ہیں، لیکن انھیں سزائیں نہیں ہورہیں اور اکثر ملزمان عدم ثبوت، گواہوں کی غیر موجودگی اور پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث کچھ عرصے میں ہی ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں اور پھر سے اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ قانونی طریقہ کار میں بھی بہت وقت لگتا ہے اور ایک کیس میں چھ ماہ سے ایک سال تک لگ جاتا ہے ، جس کا فائدہ کہیں نہ کہیں ملزمان کو ہی پہنچتا ہے،آئی جی سندھ نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ سزا نہ ہونے سے ملزمان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے بتایا کہ کراچی پولیس نے اسٹریٹ کرائم میں ملوث ملزمان کو جلد سزائیں دلوانے کے لیے کچھ سفارشات تیار کی ہیں۔ کراچی پولیس نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائم میں پکڑے گئے ملزمان کو جلد سزائیں دلوانے کے لیے اسپیشل ٹربیونل بنانے کی سفارش کی گئی ہے اور اس حوالے سے ان کی جانب سے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو ایک خط بھی لکھا گیا ہے، جس میں ان سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اس حوالے سے سندھ حکومت کو خط لکھیں۔ کراچی پولیس چیف نے بتایا کہ کہ ہم نے لیگل پراسس کو آسان بنانے کے لیے بھی سفارشات تیار کی ہیں اور ایسے مسائل کی نشاندہی بھی کی ہے، جس کا فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم میں ملوث پکڑے گئے ملزمان کے کیسز میں وقت لگتا ہے، اسی لیے ہم نے سفارش کی ہے کہ ان ملزمان کے کیسز ترجیحی بنیادوں پر سننے کے لیے اسپیشل ٹربیونل بنایا جائے اور دو ماہ کے اندر ان کیسز کے فیصلے ہوں، تاکہ پکڑے گئے ملزمان کو جلد سزائیں مل سکیں!! جاوید عالم اوڈھو کا کہنا ہے کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے بعد جرائم کے واقعات میں یقینی طور پر کمی دیکھنے میں آئے گی،انہوں نے بھی آئی جی سندھ کی طرح نفری کی کمی کی نشاندہی کی اور کہا کہ کراچی پولیس کو اس وقت 12 ہزار اہل کاروں کی نفری کی کمی کا سامنا ہے،نئی بھرتیوں کا پراسز جاری ہے، نئے اہل کاروں کے آنے سے نفری کی کمی کو پورا کرنے میں مدد مل سکے گی۔
دوسری جانب شہر میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل چھیننے اور چوری کرنے کے واقعات بھی تھمنے میں نہیں آ رہے۔ وہیکل لفٹنگ کی وارداتوں میں بھی منظم گروہ ملوث ہیں، جن کا تعلق پنجاب ،اندرون سندھ اور بلوچستان سے ہے۔ اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل ( اے وی ویل سی ) نے وہیکل لفٹنگ کی وارداتوں میں ملوث اور متعدد مقدمات میں مطلوب 7 ملزمان کے سر کی قیمت مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس حوالے سے ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل بشیر احمد بروہی نے ڈی آئی جی سی آئی اے کریم خان کو مراسلہ لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان 7 ملزمان کے سر کی قیمت مقرر کرنے کے لیے محکمہ داخلہ کو لکھا جائے۔
مراسلے کے مطابق ملزم غلام یاسین بھیو ولد محمد حسین بھیو 52 مقدمات میں ملوث ہے، جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے، ملزم کاشف ابڑو عرف انور علی ولد دلشاد احمد 41 مقدمات میں ملوث ہے، جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے،ملزم اکبر علی بھیو ولد حاجی احمد 22 مقدمات میں ملوث ہے، جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے ،ملزم نذیر احمد بھیو ولد عبدالرزاق بھیو 22 مقدمات میں ملوث ہے، جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے،ملزم مجاہد جمالی میرانی عرف کمانڈو ولد جمال دین 21 مقدمات میں ملوث ہے، جس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے، ملزم محمد خان ملاح عرف فوجی ولد محمد ملاح 14 مقدمات میں ملوث ہے ، جس کے سر کی قیمت تیس لاکھ روپے، ملزم ممتاز علی بھیو ولد سجاول خان 13 مقدمات میں ملوث ہے، جس کے سر کی قیمت تیس لاکھ روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
مجموعی طور پر سات ملزمان کے سر کی قیمت 5 کروڑ 10 لاکھ روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔اسٹریٹ کرائمز میں پکڑے گئے ملزمان سے تفتیش کے لیے اچھے اور قابل افسران کو شعبہ تفتیش میں لانا پڑے گا۔ شعبہ تفتیش کے افسران کی استعداد کار میں اضافے کےساتھ انھیں جدید ٹیکنالوجی کے فوائد اور اس کے استعمال سے بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پکڑے گئے ملزمان کو ان کے کیے گئے جُرم میں قرار واقعی سزا مل سکے اور پولیس کی محنت بے کار نہ جائے۔
دوسری جانب دیر سے ہی سہی لیکن شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ پر کام شروع ہو چکا ہے ۔ تاہم سندھ حکومت کو چاہیے کہ اسے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائے تاکہ جرائم کے واقعات کی مکمل مانیٹرنگ کےساتھ ساتھ ان کی سرکوبی بھی کی جاسکے۔