لندن(سعید نیازی) جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے ایک بنیادی کردار میاں سلیم رضا نے دعویٰ کیا ہے کہ2019میں نوازشریف کیخلاف بیا ن دینے یانتائج بھگتنے کا کہاگیاتھا، ایک سینئرایف آئی اے افسر نےمجھ سے لندن میں ملاقات کی اورکہاپاکستان جائیں،پریس کانفرنس کریں اور کہیں نوازشریف نے جج ارشد ملک کو پھنسانے کا کہاتھا، میں نے انکارکیاتوانتقام کانشانہ بنایا گیا، نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا، زندگی بچانے کے لیے لندن بھاگ آیا،اب پاکستان جاناچاہتاہوں، نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کیاجائے۔یہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے دعویٰ کیاکہ اکتوبر2019 کے پہلے ہفتے میں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر نے لندن میں ان سے ملاقات کر کے ان سے ایک پریس کانفرنس کر کے نواز شریف کے خلاف اعترافی بیان دینے کو کہا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں مالی طور پر نقصان پہنچانے اور ان کا نام انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن انھوں نے نواز شریف کے خلاف گواہ بننے سے انکار کردیا تھا۔واضح رہے کہ نومبر2019 میں ایف آئی اے نے ناصر بٹ اور میاں سلیم رضا کا نام ملک کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا لیکن اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایف آئی اے کی جانب سے میاں سلیم رضا اور دوسروں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی استدعا مسترد کردی۔ جس کے بعد ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی سے متعلق شعبے نے ناصر بٹ اور میاں سلیم رضا کا اپنی ریڈ بک میں انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا اور انھیں جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل میں ملوث کردیا اور ان پر بلیک میلنگ، مجرمانہ دھمکیاں دینے کے الزامات لگائے گئے۔ سلیم رضا نے بتایا کہ ایف آئی اے کے افسر نے پیش کش کی تھی کہ اگر میں پریس کانفرنس میں نواز شریف پر الزام لگا دوں تو مجھے بڑی سیاسی حیثیت دی جائے گی، کاروباری ٹھیکے دیئے جائیں گے اور سرکاری تحفظ دیا جائے گا، بصورت دیگر ان کے تمام اثاثے ضبط کرلئے جائیں گے، ان کے ذرائع آمدنی بند ہوجائیں گے اور میری فیملی کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ میاں سلیم رضا نے بتایا کہ لندن میں ملاقات کرنے والے ایف آئی اے کے افسر نے گرفتاری سے بچنے کیلئے ان کے فرار سے قبل7 اور8 اکتوبر کو لاہور میں بھی ملاقات کر کے پرکشش پیشکش اور دھمکیاں دی تھی، ایف آئی اے کے افسر نے کہا تھا کہ اگر وہ نواز شریف کے خلا ف گواہ بننے کو تیار ہوں تو وہ ان کی شہزاد اکبر سے ملاقات کرانے کو تیار ہیں۔ میاں سلیم رضا نے بتایا کہ طارق محمود نے مجھے جج ارشد ملک سے ملوایا تھا، جج ارشد ملک یکم جولائی2019 کو میاں طارق سے اپنی مرضی سے اپنی سرکاری کار پر بغیر سیکورٹی پروٹوکول کے دھرم پورہ لاہور میں گھر پر آئے تھے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میاں طارق ایک جج کو میرے گھر پر لے کر آئے گا، جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو مجھے پتہ چلا کہ یہ جج ارشد ملک ہیں۔ میاں سلیم رضا نے بتایا کہ اس سے بہت پہلے جج ارشد ملک کی فلم بندی ہوچکی تھی۔ انھوں نے مختلف لوگوں کو میٹنگز میں بتایا کہ میں نے نواز شریف کو غلط سزا دی ہے، جج ارشد ملک ہر ملنے والے سے کھلے عام کہتے تھے کہ انھیں افسوس ہے اور ان کے ضمیر میں خلش ہے کہ انھوں نے نواز شریف کو سزا سنائی ہے، انھوں نے مجھ سے ملاقات میں بھی یہی بات کہی تھی، انھوں نے کہا تھا کہ نواز شریف بے قصور ہے اور انھیں الیکشن کو مینوپولیٹ کرکے غلط طور پر اقتدار سے محروم کیا گیا۔ جج ارشد ملک نے مجھے بتایا تھا کہ نواز شریف کو غلط طور پر سزا دینے کے بعد اب رات کو وہ سو نہیں سکتے اور انھیں اتنا احساس شرمندگی ہے کہ وہ ایک پریس کانفرنس کر کے دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں نواز شریف کو سزا دینے کیلئے کس طرح بلیک میل کیا گیا، ارشد ملک نے مجھ سے کہا کہ جب اگلی دفعہ جب میں نواز شریف سے ملنے جیل جائوں تو میرے احساس شرمندگی اور معافی کی خواہش کو نواز شریف تک پہنچا دیا جائے لیکن میں نے انھیں بتایا کہ نواز شریف اس طرح کی باتیں پسند نہیں کرتے، میں نے یہ پیغام نواز شریف یا شریف فیملی میں کسی کو نہیں پہنچایا، میرے پاس ان سے ڈیلنگ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور میں ان کو یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ انھیں اب کیا کرنا چاہئے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ناصر بٹ سے کیسے ملے۔ سلیم رضا نے دعویٰ کیا کہ ویڈیوسکینڈل سامنے آنے کے بعد ایف آئی اے نے حراست کے دوران میاں طارق پر تشددکرکے میرے خلاف جھوٹابیان دینے پر مجبور کیا ۔ ضمانت پر رہا ہوتے ہی اس نے میرے خلاف بیان واپس لے لیا اور مجھے بتایا کہ اسے اعترافی بیان دینے کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، شہزاد اکبر نے عمران خان کو خوش کرنے کیلئے اس پر تشدد کا حکم دیا تھا۔ میاں سلیم رضا نے کہاکہ میرے دفتر سمیت تین پراپرٹیز ضبط کرلی گئیں، گھر پر چھاپہ مارا گیا اور جیولری اور سی سی ٹی وی کیمرہ سمیت تمام قیمتی چیزیں لے لی گئیں، تالے توڑ دیئے گئے اور موبائل فون بھی لے لئے گئے۔3 کمرشیل پراپرٹیز کے ڈاکومنٹس چرا لئے گئے، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا گیا اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ اپریل 2020 میں ان کی28 سالہ بہن کا لاہور میں انتقال ہوگیا لیکن میں نہ تو ان کے جنازے میں شریک ہوسکا اور نہ ہی ان کی قبر پر حاضری دے سکا، نواز شریف کی دشمنی میں ایف آئی اے نے بے قصور لوگوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔ میاں سلیم رضا نے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ سے اپیل کی کہ وہ ان کے معاملے کو دیکھیں اور ان کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائیوں کی غیرجانبدارانہ انکوائری کرائیں۔ انھوں نے کہا میں رانا ثنااللہ اور وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے کیس کو دیکھیں اور میرا نام انتہائی مطلو ب دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرائیں کیونکہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ میں ایک آزاد انسان کی حیثیت سے اپنے وطن آنا چاہتا ہوں، اپنی فیملی سے ملنا چاہتا ہوں۔ لاہور کےسابق ٹریڈر کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے سکول میں میرے بچوں کو بھی نہیں بخشا اور وہاں جاکر کہا کہ ان کا باپ ایک دہشت گرد ہے، میرے بچے مجھ سے سوال کرتے ہیں پاپا آپ نے کیا دہشت گردی کی ہے، مجھے عمران خان اور شہزاد اکبر بتائیں کہ میں انہیں کیا جواب دوں، میرے بچوں کو سکول سے نکال دیا اور ان کی پڑھائی رک گئی، میری فیملی اور بچے آج بھی چھپ کر زندگی گزر رہے ہیں۔ ویڈیو سکینڈل کے بعد لندن میں مقیم میاں سلیم رضا نے کہا کہ مشکل میں پھنسنے کے بعد میرے عزیز و أقارب اور دوستوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میرا لندن میں مینٹل ڈپریشن اور ٹراما کا علاج ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اور انہوں نے جس طرح اس کی ذاتی اور سیاسی قیمت چکائی، مجھے یہ دیکھ کر حوصلہ ملا ورنہ میں تو اُس وقت خودکشی کرلیتا۔ میں حکومت پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے کیس کو دیکھے اور انصاف کیلئے میری مدد کرے۔