وزیر آباد واقعہ کے بعد عمران خان کی مرضی کی ایف آئی آر کے عدم اندراج اور دیگر محاذوں پر جیتنے کیلئے چوہدری پرویز الٰہی شدت سے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، اس ضمن میں مونس الٰہی بھی نہ صرف اپنی سرکار بچانے بلکہ سیاسی مستقبل محفوظ کرنے کیلئے بھی سنجیدگی سے رابطے کررہے ہیں، دوسری جانب چوہدری شجاعت حسین اور انکے حمایتی پنجاب حکومت گرانے کیلئے کسی اشارے کے منتظر ہیں۔ مریم نواز کی عدم موجودگی میں پنجاب میں پوری مسلم لیگ ن سیاسی طور پر سلیپنگ موڈ میں چلی گئی ہے، ایسے لگتا ہے کہ سردیوں کی آمد سے قبل ہی پنجاب کی قیادت زیر زمین چلی گئی ہے اور مناسب وقت آنے پر ہی سیاسی سرگرمیاں شروع کریگی، چند ایک مسلم لیگی رہنما ٹی وی شوز میں ہی نظر آتے ہیں۔
تحریک انصاف کا لانگ مارچ قسط مارچ کی شکل اختیار کر گیا ہے، لانگ مارچ میں شرکاء کی تعداد میں واضح کمی نے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، سابقہ اسلام آباد میں 126 دن کے دھرنے کی طرح یہاں بھی خالی کرسیاں اورآن لائن خطاب نے تحریک انصاف کی مقبولیت کے غبارے سے مکمل طور پر ہوا خارج کردی ہے، عمران نیازی کے یوٹرن سنچری کراس کرچکے ہیں، تحریک انصاف کے ماننے والوں کیلئے عمران خان کے تازہ ترین یوٹرن روسی دورہ غلطی، سائفر ماضی کا حصہ، امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتا ہوں کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
عمران خان پر قاتلانہ حملے کی گتھی ابھی تک سلجھ نہیں پائی اور نہ ہی اس کی تحقیقات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا ہے، سوشل میڈیا پر سخت سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ مقامی ہسپتال سے میڈیکو لیگل بنوانے کی بجائے 158 کلومیٹر دور شوکت خانم ہسپتال سے طبی امداد لینے نے واقعے کو مشکوک بنا دیا ہے، سیاسی اور عوامی حلقے کسی صورت یہ یقین کرنے کو تیا ر نہیں ہیں کہ واقعی چار گولیاں عمران خان کو لگی تھیں، جبکہ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بھلا کوئی خود اپنے آپ پر قاتلانہ حملہ کیوں کروائے گا؟ پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو جب کبھی کسی سیاسی شخصیت پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت تک یقین نہیں کیا جاتا جب تک وہ شخصیت جان سے ہاتھ دھو نہ بیٹھے جیسا کہ ہمیں مارچ میں ہونے والے بینظیر بھٹو حملے میں دیکھا گیا کہ لوگ اس حملے کو بی بی کے ساتھ منسوب کر رہے تھے اور پھر جب دسمبر میں دوبارہ بی بی پر حملہ ہوا جس میں بی بی کی شہادت ہوئی، تب لوگوں نے اس قاتلانہ حملے کو واقعتا قاتلانہ حملہ تسلیم کیا۔
وزیر آباد حملے کے بعد تحریک انصاف کی سیاست نے نیا رخ لے لیا ہے، اب عمران نیازی کا کہنا ہےکہ ہمیں عام انتخابات کی جلدی نہیں ہے جس سے تحریک انصاف کے رہنمائوں کیلئے اس بیانیے کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے کیونکہ ان کا تو لانگ مارچ فوری انتخابات کروانے کی بنیاد پر شروع ہوا تھا۔موسم سرما کی آمد اور گیس کی شدید ترین لوڈشیڈنگ نے انڈسٹری کو ایک بار پھر جامد کردیا ہے، یہاں عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ دنیا کی جانب سے پاکستان کو ایل این جی فراہم نہ کرنے کی خبر بہت ہی پریشان کن ہے، سابقہ وفاقی حکومت نے گیس کی درآمد کیلئے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے نہ کرکے جو ظلم کیا ہے اس کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ موجودہ موسم سرما میں نہ صرف گیس کی شدید ترین لوڈشیڈنگ ہوگی بلکہ بھاری بل بھی آئیں گے، ملک میں چھائی سیاسی ابتری کے نتیجے میں محمد بن سلیمان کے دورہ پاکستان کے التوا نے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی حکومتی کوششوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ حب بلوچستان میں لگائی جانے والی آئل ریفائنری سمیت20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے منصوبوں سے ترقی کے ایک نئے سفر کا آغا ز ہونا تھا جس سے پاکستان کا معاشی استحکام یقینی تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا ہو ، قبل ازیں126 دن کے دھرنے کی وجہ سے چینی سربراہ کے دورہ پاکستان التوا کا شکار ہوا اورمعاشی حالات دگرگوں ہوگئے تھے۔ چیئرمین تحریک انصاف کا غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دینے کا سلسلہ جاری ہے،ہر روز ایک نئے بیان میں پچھلے بیانیے کی تردید سے صورتحال دلچسپ اور عجیب و غریب ہوتی جارہی ہے، سوشل میڈیا کے ہر تحریک انصاف کے حمایتی پریشان ہیں کہ اب کس طرح نئے بیانیے کا دفاع کریں؟
توشہ خانہ سے لی گئی گھڑی اور تحائف کے خریدار کے سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر نئی لڑائی چھڑ گئی ہے،اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی مقبولیت میں تیزی سے کمی دیکھی جارہی ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس جماعت کا پاکستان کی معاشی ترقی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ہر روز ایک سو اسی ڈگری کا یوٹرن لینے والا سنجیدہ اور سچا سیاست دان ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنوں کا مقصد صرف اورصرف ملک کو فسادکی راہ پر ڈال کردیوالیہ کرنا ہے تاکہ کوئی بھی اس پر حکمرانی کیلئے دستیاب نہ ہو۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ لانگ مارچ اسلام آباد نہیں پہنچ پائیگا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے طے کرلیا ہے کہ اس بار جڑواں شہر کے امن وامان اور کاروبار سے کسی کو کھیلنے نہیں دیا جائیگا۔ تحریک انصاف حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی ناکامی کے بعد سیاسی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ اس پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار ہوجائیگی؟